ریاض: عدم استحکام اور انتشار کے شکار مشرق وسطیٰ میں حالات برق رفتاری سے تبدیل ہو رہے ہیں۔

بدلتے سیاسی منظر نامے میں سعودی عرب کا کردار کلیدی ثابت ہو رہا ہے اور اختیارات کی تبدیلی کا وقت سامنے کھڑا ہے جبکہ اسرائیل اب دشمن ملک نہیں رہا اور فلسیطنی قیادت بھی ریاض کے زیر اثر نظر آتی ہے۔

دوسری جانب خلیجی ممالک نہ صرف سیاسی بوجھ بلکہ انتشار میں ملوث فریق بن کر ابھر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کے کئی عرب اور مسلم ریاستوں کے ساتھ’خفیہ‘ روابط کا انکشاف

یہ ایک بڑی تبدیلی ہے

سعودی عرب کے انگریزی اخبار ’عرب نیوز‘ نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ شائع کی جس میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو ‘ایران کے خفیہ جوہری پروگرام سے متعلق تفصیلات’ پیش کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

یہ واقعہ تاریخ میں ایک مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور اسٹوری یہاں اختتام پذیر نہیں ہوتی۔

اس سے قبل اسرائیلی نیوز چینل ’10 نیوز‘ نے رپورٹ نشر کی تھی کہ گزشتہ ماہ نیویارک میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی تھی جس میں محمد بن سلمان نے فلسطینی قیادت کی جانب سے امن معاہدے کو مسترد کرنے پر کڑی تنقدی کی اور زور دیا تھا کہ انہیں امن معاہدہ قبول کرنا چاہیے یا پھر امن معاہدے پر مکمل ‘منہ بند’ کرلیں۔

اسرائیلی چینل نے متعدد ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ سعودی شہزادے کی جانب سے سخت تنقید پر فلسطینی قیادت ‘حیران’ تھی۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے اجلاس میں کہا تھا کہ ‘گزشتہ 40 برس سے فلسطینی قیادت متعدد مرتبہ مواقع گنوا چکی ہے’۔

گزشتہ ماہ سعودی ولی عہد نے واضح طور پر کہا تھا کہ اسرائیلی ریاست کو اپنی موجودگی کا پورا حق حاصل ہے۔

مزید پڑھیں: ایک سیلفی پر عرب-اسرائیل تنازع

دی ایٹلانٹک کے چیف ایڈیٹر جیری گولڈ برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین کو اپنی حدود میں رہنے کا پورا حق ہے اور میرا ماننا ہے کہ ہر شخص کو اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ رہنے کا حق ہے۔

مذکورہ بیان کو اسرائیل اور سعودی عرب کے غیر رسمی تعلقات کی تصدیق کے طور پر دیکھا گیا۔

بعض لوگوں نے ولی عہد کے بیان کو سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادگی کا اظہار سمجھا اور ایسا سمجھنا یقینی بھی تھا۔

خلیجی ممالک بھی تل ابیب سے تعلقات کے خواہاں ہے، قطر اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ دہائیوں پر مشتمل ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل اسرائیل کے اہم عہدوں پر فائز لوگوں نے بحرین کا دورہ کیا تھا اور عمان کی تاریخ میں بھی اسرائیل سے تعلقات کی جھلک ملتی ہے۔

یہ پڑھیں: مسجد نبوی میں ایک اسرائیلی یہودی کی تصویر پر تنازع

تمام واقعات خطے میں نئے اتحاد کے قیام کی جانب اشارہ کررہے ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطین کے صدر محمود عباس کو ریاض سے گزشتہ سال نومبر میں ایک مراسلہ ارسال کیا گیا تھا جس میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل فلسطین امن معاہد قبول کرنے یا پھر مستعفی ہونے کا کہا گیا۔

عرب ممالک کے لیے ایران ایک مشترکہ دشمن کی صورت میں ابھرا ہے اور وہ اب اسرائیل سے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس ضمن میں سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈ لیزا رائس نے چھ ممالک کی جی سی سی گروپ میں اسرائیل اور مصر کو شامل کرنے کی کوشش کی تاکہ خطے میں ایرانی اثرورسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے لیکن سعودی عرب اس وقت حالات میں تبدیلی کا خواہش مند نہیں تھا اور یوں کونڈ لیزا رائس کی کاوشیں رائیگاں گئیں۔

اب حالات یکسر مختلف ہیں، خطے میں نئے اتحاد بن رہے ہیں۔


یہ رپورٹ 7 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں