مشرف دور کے اختتامی عرصے سے لے کر 2013ء کے انتخابات تک مقامی اور بین الاقوامی اشاعتوں نے پاکستان کے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے کے بارے میں کئی خبریں شائع کی ہیں۔ کچھ نے کوئی 4 کروڑ نفوس پر مشتمل اس طبقے سے متوقع معاشی فوائد پر بات کی (کوئی بھی گھرانہ جو ماہانہ 30 ہزار سے زائد کماتا ہو اسے متوسط طبقہ شمار کیا گیا) جبکہ دیگر نے اس طبقے کے سیاست پر ممکنہ اثرات کو بھی نمایاں کیا۔

دونوں نکتہءِ نظر کی بنیاد ایک مادی حقیقت پر قائم تھی، یعنی 21ویں صدی کے اوائل سے آخری سال تک کھپت میں قومی معیشت کے حصے کے طور پر اضافہ (گزشتہ سال یہ ملکی معیشت کا ریکارڈ 85 فیصد تھا) جس کا اظہار بڑے اور چھوٹے شہری علاقوں میں اشیاء کی زبردست کھپت سے ہوا۔ نئے شاپنگ مال اور ریٹیل اسٹور جو اب ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں، پاکستان کی معیشت میں آنے والے اس صارفانہ موڑ کے عکاس ہیں۔

اسی طرح نجی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے پھیلاؤ، وکلاء تحریک کے تجربے اور 2011ء کے اواخر اور 2012ء کے اوائل میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ابھرنے سے بھی 'نئی' طرح کی سیاست کے وعدے نے جنم لیا جو پھیلتے ہوئے متوسط طبقے کے ذریعے جنم لے گی۔ ان رجحانات اور واقعات سے یہ محسوس ہونے لگا تھا جیسے کہ روایتی سیاست کا دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔

مگر 2013ء کے انتخابات اور اس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات سے معلوم ہوا کہ ایسا ضروری نہیں تھا۔ متوسط طبقہ بڑا اور ثقافتی طور پر مختلف النوع ہے، چنانچہ متوسط طبقے کے ووٹر سیاسی دنیا کو بھی الگ الگ انداز میں دیکھتے ہیں۔ کچھ کو پی ٹی آئی کا کرپشن مخالف، ’اسٹیٹس کو‘ مخالف بیانیہ بھایا، تو کچھ نے مسلم لیگ (ن) کے بتدریج انفراسٹرکچر ترقیوں کو ترجیح دی۔ مگر سب سے زیادہ اہم یہ کہ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب ملک کی حقیقی سیاسی قسمت کا فیصلہ دھرنوں، سرپرستانہ سیاست اور دیہی علاقوں میں امیدواروں کے قد کاٹھ کے جانے پہچانے ملغوبے کے ذریعے ہو رہا تھا۔

مزید پڑھیے: مدت پوری کرتی اسمبلی اور کمزور ہوتی جمہوریت

5 سال گزر چکے ہیں اور اب ایک اور عام انتخابات کے موقع پر ایسے ہی رجحانات دوبارہ مرکزی منظرنامہ سنبھالیں گے۔ جیتنے والی جماعت شاید مختلف ہو مگر اس کی جیت کی بنیاد اسی منطق اور حکمتِ عملی پر ہوگی کہ جس نے اب تک کئی دیگر کو بھی ماضی میں انتخابات جیتنے میں مدد دی ہے۔

پہلی نظر میں تو یہ کافی مایوس کن معلوم ہوتا ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ سرپرستانہ یا شخصیات کے گرد گھومتی سیاست اپنے آپ میں منفی ہے، مگر اس لیے کیوں کہ اس سے ٹھہراؤ اور انجماد کا شائبہ ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آہنی ڈھانچہ اتنا مضبوط ہے کہ مخلص ترین نیتوں کو بھی غیر اخلاقی حکمتِ عملیوں میں تبدیل کردیتا ہے اور لوگ پوچھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ اس طرح کے حالات میں آخر ترقی پسند تبدیلی کیسے ممکن ہے؟

اس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں ہے، مگر اپنی امیدوں کے ازسرِ نو تعین کا راستہ ضرور موجود ہے۔ جمہوریت کی ایک دہائی میں شاید وہی سیاسی بیہودگیاں رہی ہیں جو گزشتہ 70 سالوں سے ملک میں چل رہی ہیں، یعنی سیاستدانوں کی باہمی رسہ کشی، ادارہ جاتی تصادم، مستقل بے یقینی۔ مگر اس دہائی میں سیاست کی فطرت میں کچھ چھوٹی (مگر مضبوط) تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملی ہیں اور اس کی کم از کم تھوڑی بہت وجہ شہری آبادیوں میں اضافے اور متوسط طبقے کے پھیلاؤ کا سیاسی اثر بھی ہے۔

گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی سے وابستہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے پارٹی کے حکومتی کارناموں کی ایک فہرست جاری کی تھی۔ اس میں صحت اور تعلیم کے لیے زیادہ اخراجات اور اس کے علاوہ اہم شعبوں میں شہریوں اور ریاست کا تعلق بہتر بنانے (مثلاً پولیس) کے لیے اصلاحات کا بھی ذکر تھا۔ گزشتہ کچھ ماہ سے مسلم لیگ (ن) بھی پنجاب میں اپنی کامیابیاں گنوا رہی ہے جس میں بہت ساری نئی انفراسٹرکچر اسکیمیں اور تعلیمی شعبے میں اہم اور پُرعزم اصلاحات بھی شامل ہیں۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بھی دیہی سندھ میں صحت کی خدمات کی فراہمی اور سوشل پروٹیکشن بہتر بنانے کی اپنی کوششوں پر روشنی ڈالی ہے۔ نتیجتاً میڈیا پر صرف مصالحے دار اور اکثر معلومات سے عاری بحث چل رہی ہوتی ہے کہ حکومت میں کس کی کارکردگی اچھی رہی اور کس کی ترجیحات درست رہیں۔

شاید چوں کہ خدمات کی فراہمی کا معیار اب تک اتنا بُرا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز ترقی نہیں کہلاتی۔ اگر لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہوں تو چند دیواریں دوبارہ تعمیر کردینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یا پھر میٹرو بس بننے سے نئی ملازمتیں پیدا ہونے اور مقامی سرمایہ کاری میں اضافے کا کیا فائدہ اگر ملک کے زیادہ تر حصوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں؟ وہ بدقسمت لوگ جو سوشل میڈیا تک رسائی رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ سوالات اور یہ بحثیں ان کی زندگیوں کا حصہ ہیں۔ کوئی فیس بک وال یا ٹوئیٹر ٹائم لائن ان سے عاری نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: ہمارے اراکینِ اسمبلی کو اسمبلی میں آنا پسند کیوں نہیں؟

مگر حسبِ حال بات یہ ہے کہ مقابلے کا یہی شور و غول پاکستانی سیاست میں جنم لینے والی چھوٹی تبدیلی ہے۔ اگر آپ کو جمہوریت کی ایک دہائی کے گرد گھومنے والے پورے بیانیے کا خلاصہ کرنا اور ایک مضبوط قدم آگے کا تعین کرنا ہو تو وہ یہ ہوگا۔ آج کی سیاست شاید بلند ترین توقعات کے مطابق خدمات فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، مگر اس کا مجموعی بیانیہ زیادہ واضح معاملات کی جانب بڑھ رہا ہے۔

سچ کہیں تو اس ملک میں راتوں رات تبدیلی کبھی ممکن بھی نہیں تھی۔ کام کا پرانا طریقہ اور اداروں کا اپنی قوت جتانا اس قدر راسخ ہے کہ اسے فوراً ختم نہیں کیا جاسکتا۔

ریاست کی نوعیت اور اس کے شہریوں سے معاہدے کے بارے میں ابھی بھی کئی بڑے سوال ہیں جو پوچھے جانے (اور حل ہونے) کے منتظر ہیں۔ وفاق کا مستقبل کیا ہے؟ لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کیا ہیں؟ سیاست میں فوج کا کردار کیا ہے؟

ان سوالوں کو پوچھنے کی گنجائش ہمیشہ محدود رہی ہے اور یہ حقیقت مستقبل قریب میں بھی تبدیل ہوتی نہیں دکھائی دیتی۔ مگر دوسری طرح کے سوالات اٹھنے شروع ہوئے ہیں اور کونے کھدروں میں ان کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ بڑے اور اہم سوالات بھی مستقبل میں کسی موقع پر توجہ حاصل کریں گے۔

پاکستان ایک کم آمدنی، خراب سماجی اشاریوں، بدعنوان اشرافیہ اور طاقت کے لیے نبرد آزما ریاستی اداروں والا ملک ہے۔ یہی وہ میدان ہے جس میں ہم کام کر رہے ہیں اور جس میں ہمیں مقابلہ کرنا ہے۔ کم عرصے میں راتوں رات تبدیلی کی گنجائش کم ہے اور سیاسی نظام سے بلند ترین توقعات وابستہ کرنے کا مطلب یقینی مایوسی ہے۔

شہری آبادی میں اضافے اور معاشی ترقی جیسی تبدیلیاں یقینی بنائیں گی کہ تبدیلی ضرور آئے، مگر یہ اس رفتار سے نہیں آئے گی جس کی ہر کسی کو توقع ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 جون 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں