سپریم کورٹ نے کراچی میں شارع فیصل سمیت تمام شاہراہوں پر اشتہاری مقاصد کے لیے بنائی گئیں دیواروں کو منہدم کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ اس مقصد کے لیے دیواریں بنانے پر پابندی عائد کردی۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اشتہارات کے لیے بڑی بڑی دیواریں بنانے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔

درخواست گزار اشرف سعید کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ شہر میں بڑے سائن بورڈ اور بل بورڈز ہٹا دیے گئے لیکن اب دیوریں کھڑی کی جارہی ہیں۔

درخواست گزار نے بتایا کہ کراچی میں ایف ٹی سی کے سامنے دیوار بنا کر شہر کی خوبصورتی کو ختم کردیا گیا جبکہ اس کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی ایسی دیواریں بنائی جارہی ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی: واٹر کمیشن نے ڈی ایچ اے، کلفٹن میں تعمیرات پر مکمل پابندی لگادی

انہوں نے بتایا کہ شہر بھر میں خصوصاً کنٹونمنٹ بورڈز میں دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں، جس پر عدالت میں موجود سی ای او کراچی کنٹونمنٹ نے بتایا کہ بعض دیواریں دفاعی مقاصد کے لیے بنائی گئی ہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں کس نے یہ دیواریں بنائی ہیں؟ اس پر کراچی کنٹونمنٹ نے بتایا کہ اشتہاری کمپنیوں کو نوٹس جاری کردیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ نوٹس سے کچھ نہیں ہوگا، کارروائی کریں، بعد ازاں عدالت نے کراچی میں اشتہاری مقاصد کے لیے تعمیر کی گئی دیواروں کو منہدم کرکے 10 روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

کراچی میں نالوں کی صفائی کے لیے ایک ماہ کی مہلت

قبل ازیں سپریم کورٹ نےصاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے معاملے میئرکراچی وسیم اختر کو شہرقائد میں نالوں کی صفائی کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی تھی۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے معاملے پر سماعت ہوئی،اس دوران چیف سیکریٹری، میئر کراچی اور درخواست گزار ایڈووکیٹ شہاب اوستو عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار نے بتایا کہ واٹرکمیشن کے حکم کے مطابق پانی کی اسکیموں پر کام ہورہا ہے، 3 ہزار سے زائد اسکیموں میں 900 اسکیمیں رواں سال مکمل ہوجائیں گی، اس کے علاوہ 33 واٹر ٹریمنٹ پلانٹ ہیں، جس میں 16 جون 2018 تک مکمل بحال ہو جائیں گے۔

درخواست گزار نے بتایا کہ ہسپتالوں میں انسٹیٹرز لگائے جارہے ہیں جبکہ کراچی کو 260 ملین گیلن پانی کی فراہمی کا منصوبہ آئندہ سال دسمبر میں مکمل ہوجائے گا۔

دوران سماعت سپریم کورٹ نے واٹر کمیشن کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ میں کارکردگی دیکھ کر خوش ہوا ہوں، سندھ حکومت کی کاردگی اچھی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نالوں کی کیا صورتحال ہے، ہر جگہ کچرا تھا، چیف سیکریٹری ہمیں کہاں کے دورے پر لے کر جائیں گے؟جس پر چیف سیکریٹری نے کہا کہ صفائی کا معاملہ میئر بتا سکتے ہیں۔

اس موقع پر عدالت میں موجود میئر کراچی وسیم اختر نے بتایا پہلے سے بہتری آئی ہے اور کام تیزی سے ہورہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کراچی والے کیا محسوس کرتے ہیں؟ صفائی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔

میئرکراچی نے بتایا کہ صورتحال پہلے سے بہت بہتر ہے، ہم کام کر رہے ہیں، نالوں کی صفائی کا کام بھی شروع ہوچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: واٹر کمیشن کا 200 مسلمان خاکروبوں کو فارغ کرنے کا حکم

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے بتائیں کب نالے دکھائیں گے؟ مون سون کا سیزن شروع ہورہا ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے میئر کراچی کو برساتی نالوں کی صفائی کے لیے ایک ماہ کی مہلے دیتے ہوئے تنبیہ کی کہ اگر ایک ماہ میں صفائی نہ ہوئی تو سخت کارروائی کریں گے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ کمیشن کے سربراہ امیر ہانی مسلم کی مدت میں دسمبر 2019 تک توسیع کی جائے۔

تاہم سپریم کورٹ نے واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی مدت میں جنوری 2019 تک توسیع کرنے کی منظوری دے دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jun 09, 2018 06:40pm
سپریم کورٹ سے گزارش ہے کہ صرف سڑک کنارے دیواریں نہیں بنائی گئیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عمارتوں کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، افسوس تو ہوتا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے بالکل سامنے شاہین کمپلیکس کی عمارت پر انتہائی بڑی اور بے ہنگم دیوار بنی ہوئی دیکھتے ہیں، شاہین کمپلیکس کراچی شہر کی ایک علامت تھا، یہ بورڈ بنانے والوں کی آنکھوں پر پتہ نہیں کس چیز کی پٹی لگ گئی کہ اس کو چھپا کر بورڈ بنا دیا، جو انتہائی خطرناک بھی ہے، امید ہے پاکستان ائیرفورس کے شاہین کمپلیکس سے اس بورڈ کا خاتمہ کیا جائے گا۔ دوسری جانب، آئی آئی چندریگر روڈ، کارساز، ڈیفنس میں بھی انتہائی اونچے اونچے پلرز کھڑے کرکے یہ گھنائونا کام کیا گیا، خواہ مخواہ اونچی اونچی دیواریں بنا کر اس پر اشہتار لگادیے۔ حفاظتی انتظامات کے بغیر صرف بورڈ لگانے کے لیے بلڈنگوں میں تبدیلیاں کی گئیں، ان کی کھڑکیاں اور روشندان بند کردیے گئے۔ کارروائی اس لیے نہیں کی جاسکی کہ تمام متعلقہ ادرے خود بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ تمام بل بورڈز ہٹنے سے کراچی کے لوگ بہت زیادہ خوش تھے مگر سپریم کورٹ کے حکم سے قصداً آنکھیں بند کی گئیں۔