فاٹا کا انضمام تو ہوگیا مگر ترقیاتی ایمرجنسی کی ضرورت ہے

دہائیوں سے جاری تنازعے سے بکھر چکے سماج کے ٹکڑے جمع کرنے کا مطلب صرف تباہ حال گھروں کی تعمیرِ نو نہیں، بلکہ فاٹا کے رہائشیوں کو غذائی تحفظ فراہم کرنا بھی ہے۔ — فوٹو غازی غزن خان۔
دہائیوں سے جاری تنازعے سے بکھر چکے سماج کے ٹکڑے جمع کرنے کا مطلب صرف تباہ حال گھروں کی تعمیرِ نو نہیں، بلکہ فاٹا کے رہائشیوں کو غذائی تحفظ فراہم کرنا بھی ہے۔ — فوٹو غازی غزن خان۔

پاکستان کے وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کو عام طور پر 'علاقہ غیر' کہا جاتا ہے۔ مگر قبائلی لوگوں کی نظر میں یہ علاقہ یاغستان کہلاتا ہے، یعنی جہاں کوئی حکومت نہ ہو۔

اکثیریتی طور پر پہاڑی سلسلوں پر مشتمل 27 ہزار مربع کلومیٹر پر باجوڑ سے جنوبی وزیرستان تک پھیلا ہوا قبائلی خطہ اب آئینِ پاکستان میں تیز تر انداز میں متعارف کروائی گئی 31 ویں ترمیم کے بعد خیبر پختونخواہ میں شامل ہوگیا ہے۔

اس کی وجہ سے آئینِ پاکستان میں سے ایک علیحدہ انتظامی یونٹ کے طور پر 'فاٹا' کا لفظ ختم ہو چکا ہے اور اب یہاں کے لوگ ایک صدی پرانے ظالمانہ قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) سے چھٹکارہ حاصل کر چکے ہیں جسے صدرِ پاکستان کے دستخط کردہ نئے عبوری گورننس ریگولیشنز (2018) میں "سیاہ قانون" قرار دیا گیا ہے۔

تقریباً 100 سالوں تک باقاعدہ دستاویزات اور ترقی سے محروم رہنے کے بعد یہ تاریخی ترمیم 60 سے 70 لاکھ قبائلی افراد کو مرکزی دھارے میں لا کر پاکستانی کے دیگر علاقوں کے ساتھ لا کھڑا کرے گی تاکہ یہ ترقی کر سکیں اور باقی کے پاکستان کو مہیا بنیادی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکیں۔

یہ مرحلہ طویل اور صبر آزما ہوگا مگر امید ہے کہ جب ایک دفعہ چیزیں ٹریک پر آ جائیں گی تو اس سے یہاں کے لوگوں کے دیرینہ مسائل اور محرومیوں کا کافی حد تک ازالہ ہوگا۔

فاٹا میں 7 قبائلی ضلعے ہیں جنہیں عام طور پر ایجنسی کہا جاتا ہے جبکہ 3000 دیہات ہیں جن میں کوئی 50 لاکھ کے قریب افراد مقیم ہیں۔ 4 فیصد سے بھی کم آبادی باقاعدہ قائم شدہ قصبوں میں رہتی ہے چنانچہ یہ پاکستان کا سب سے زیادہ دیہی انتظامی یونٹ ہے۔

پڑھیے: فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟

مجموعی شرحِ خواندگی 30 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ باقی ملک میں 56 فیصد ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 70 فیصد سے زیادہ آبادی معمولی زراعت پر منحصر ہے۔ اوسط فی کس آمدنی تقریباً 1 ڈالر یومیہ ہے جو کہ قومی فی کس آمدنی کا نصف ہے۔

یہ صورتحال یہاں کے لوگوں کی موجودہ حالتِ زار کی عکاس ہے جنہیں بار بار دربدری کی وجہ سے ذہنی و جسمانی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ یہ لوگ ایسے 'علاقہ غیر' میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں زندگی تھم چکی ہے۔

حکومت کے لیے سب سے مشکل کام عام ملک کے دیگر حصوں میں موجود انفراسٹرکچر کی ان علاقوں میں عدم موجودگی کے پیشِ نظر قبائلی افراد کو لاحق مسائل اور انہیں درپیش مشکلات کے حوالے سے ترجیحات کا تعین، اور ان کے غیر تسلیم شدہ مطالبات کی تکمیل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی خطہ مسائل اور مشکلات کا ایک بہت بڑا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے مگر یہاں کئی مواقع اور وسائل بھی موجود ہیں جو خود سے فائدہ اٹھائے جانے کے منتظر ہیں۔

دوسرے الفاظ میں کہیں تو پائیدار امن کا تعلق فاٹا میں زرعی پیداوار میں اضافے سے ہے۔

زرعی منظرنامہ

زراعت فاٹا کے تمام اضلاع میں ایک بنیادی وسیلہ ہے کیوں کہ 65 فیصد سے زیادہ آبادی اپنی خوراک کے لیے براہِ راست اس پر منحصر ہے۔ شمال سے جنوب تک زراعت کے رجحانات میں معمولی رد و بدل کے ساتھ زیادہ تر آبادی فصلوں کی پیداوار، مویشی بانی، پھلوں کے باغات بالخصوص سیبوں اور سبزیوں میں مشغول ہے۔

27 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر کے مجموعی معلوم رقبے میں سے زیرِ زراعت رقبہ صرف 1 لاکھ 40 ہزار ہیکٹر کے قریب ہے۔ آبپاشی سے فائدہ حاصل کرنے والی زمین کوئی 80 ہزار ہیکٹر ہے جبکہ غیر آباد رقبہ 25 لاکھ 80 ہزار ہیکٹر کے قریب ہے۔ برباد پڑی زمینیں جنہیں آباد کیا جا سکتا ہے، ان کا رقبہ 1 لاکھ 80 ہزار ہیکٹر کے قریب ہے۔

فاٹا میں کئی باغات اور کھیت دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں۔ — فوٹو غازی غزن خان
فاٹا میں کئی باغات اور کھیت دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں۔ — فوٹو غازی غزن خان

کسان عموماً مختلف اقسام کی فصلیں، سبزیاں، اور پھل زمین کے چھوٹے اور بٹے ہوئے ٹکڑوں پر اگاتے ہیں تاکہ خوراک اور تھوڑی بہت آمدنی حاصل کی جا سکے۔ بچوں اور خواتین کا کردار آبادگاری، مویشیوں کو چرانے، فصلوں کی کٹائی، پھلوں کی چنائی اور پیکنگ، اور پانی کی تلاش میں اہم ہے۔ زراعت کے رجحانات کافی پیچیدہ ہیں اور ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی، آبپاشی کے پانی کی کمی، نقل و حرکت پر پابندیوں اور اعلیٰ معیار کے کھاد اور بیج تک عدم رسائی کی وجہ سے یہاں رقبے کے لحاظ سے پیداوار کم ترین ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی، فوڈ سیکیورٹی کلسٹر اور فاٹا سول سیکریٹریٹ کی 2016 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق وہ قبائلی افراد جو جنگوں کے بعد اپنے گھروں کو لوٹے ہیں، غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ یہ آمدنی سے قریبی طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس لیے غذائی امداد، چاہے وہ کام کے بدلے میں خوراک ہو یا کام کے بدلے میں کیش ہو، ان کا غذائی تحفظ بڑھانے، پائیدار اثاثوں کی تیاری اور زندگیاں بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

قبائلی علاقوں میں مجموعی شرحِ خواندگی 30 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ باقی ملک میں 56 فیصد ہے۔ اوسط فی کس آمدنی تقریباً 1 ڈالر یومیہ ہے جو کہ قومی فی کس آمدنی کا نصف ہے۔

رپورٹ کے مطابق واپس لوٹنے والے تقریباً 90 فیصد لوگ کچے مکانوں میں رہ رہے تھے، 52 فیصد صحت کے لیے غیر محفوظ پانی پی رہے تھے، جبکہ دسویں حصے سے بھی کم لوگ پانی کی صفائی کا کوئی نظام استعمال کر رہے تھے۔ نکاسی آب کی صورتحال بھی ایک سنگین مسئلہ قرار پائی جس میں پایا گیا کہ 56 فیصد مرد اور 12 فیصد خواتین کھلے عام رفع حاجت کر رہے تھے۔

مجموعی طور پر 6 فیصد گھرانوں کی سربراہ خواتین تھیں۔ مردوں اور خواتین کے درمیان تعلیمی سطح میں بہت بڑا فرق موجود ہے جس میں گھرانوں کے صرف ایک تہائی سربراہان ہی کسی حد تک تعلیم یافتہ تھے جبکہ خاندان کی سربراہ خواتین میں یہ شرح مردوں کی 36 فیصد کے مقابلے میں صرف 15 فیصد تھی۔

مزید پڑھیے: فاٹا کے حل طلب مسائل اور حکومتی بے حسی

رپورٹ کے مطابق "خواتین کے زیرِ سربراہی خاندانوں میں غذائی تحفظ کے اشاریے کھانے کی مقدار اور استعمال کی جانے والی کیلوریز کے معیار پر سب سے برے تھے چنانچہ ان گھرانوں کی ایک بڑی تعداد کو اس سے نمٹنے کی کثیر اور منفی حکمتِ عملیوں پر منحصر ہونا پڑ رہا تھا۔"

اگر حکومت قبائلی ضلعوں میں ترقیاتی خلیج پر کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے موجودہ روایتی نظام جنگی بنیادوں پر تبدیل کر کے کریش پروگرام شروع کرنے ہوں گے۔

غذائی تحفظ کو ترجیح دینا

غذائی عدم تحفظ کا مطلب خوراک کی عدم دستیابی نہیں بلکہ یہ ایسی صورتحال کا نام ہے جس میں لوگ شدید غربت کی وجہ سے عمومی جسمانی ضروریات پورا کرنے جتنی خوراک نہیں خرید سکتے۔

پاکستان کے اس سب سے زیادہ پسماندہ، تنازعات میں گھرے، اور عسکری موجودگی والے علاقے کے لیے سب سے بنیادی اور اہم چیلنج اس کے طول و عرض میں موجود عوام کو لاحق غذائی عدم تحفظ ہے جس کی بنیادی وجہ کوئی دو دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی اور فوجی آپریشنز ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار پریشان کن ہیں: تین چوتھائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے جبکہ نومولود بچے شدید غذائی قلت اور بڑھوتری کی کمی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اس خطے میں نومولود بچوں کی شرحِ اموات ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

2016 میں جاری کردہ اقوامِ متحدہ کی یہ رپورٹ کہتی ہے کہ "گھروں کو واپس لوٹنے والی آبادیاں غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ مجموعی طور پر 28 فیصد گھرانوں کی خوراک قابلِ قبول حد پر ہے، 18 فیصد گھرانوں کی خوراک کم ہے، جبکہ 54 فیصد گھرانے صرف کم خوراکی اور غذائی قلت کی لکیر پر ہیں، جبکہ 44 فیصد گھرانے روزانہ کیلوریز کی مطلوبہ مقدار یعنی 2100 کلو کیلوریز فی شخص کو پورا کرنے سے عاری ہیں۔"

زمینوں کی پیداواری صلاحیت بھی خاصی حد تک کم ہوئی ہے اور اس میں کئی عوامل نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ صرف سالہا سال سے جاری تنازعات، جبری ہجرت، یا روایتی سماجی معاشی رجحانات کے بکھرنے کی وجہ سے فاٹا سے باہر معاشی سرگرمیوں کی کثیر النوعی تک محدود نہیں ہے۔ نہ ہی یہ صرف نقل و حرکت پر نافذ حدود اور طویل کرفیوز تک محدود ہے جن کی وجہ سے تجارتی رجحانات میں فرق آتا ہے، زمینیں ٹکڑوں میں بٹتی ہیں، معیاری کھاد اور بیج کی عدم دستیابی ہوتی ہے اور زراعت کے لیے آبپاشی کا پانی کا وقت پر نہیں مل پاتا۔

یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ اس علاقے میں اسلحہ، بارودی سرنگیں، عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں اور ملٹری آپریشنز جاری ہیں جن کی وجہ سے زراعت پر مبنی ایک نارمل زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے چنانچہ مقامی خوراک اور ادلہ بدلی کے نظام پر منحصر ایک بڑی آبادی غربت کا شکار ہوجاتی ہے۔ زراعت میں حیاتِ نو پھونکنے کے لیے ایک ایسا منصوبہ تشکیل دینا ہوگا جس میں مندرجہ بالا تمام عوامل کو مدِ نظر رکھا جائے۔

اس خطے میں قدرتی اور نامیاتی غذائیں پیدا کر کے ایک بین الاقوامی منڈی بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے جس سے بہت ہی تھوڑے عرصے میں یہاں کی کسان برادری کی سماجی و معاشی صورتحال بدل سکتی ہے۔

خوراک کی مجموعی پیداوار اپنی صلاحیت سے کم از کم 30 فیصد کم ہے اور اسے نئی تکنیکوں کے ذریعے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ برباد پڑی زمینوں کو ان کی آبادگاری میں لاحق مسائل حل کر کے آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس زبردست صلاحیت میں آپ زیتون اور معیاری انگور اگانے کے رجحان کو دیکھیں، جسے ابھی کافی محدود پیمانے پر سرانجام دیا جا رہا ہے۔

قدرتی طور پر اگنے والے جنگلی زیتون کے کم از کم 4 کروڑ پودوں کو قلم کاری کے ذریعے یورپی اجناس میں تبدیل تبدیل کیا جا سکتا ہے جس سے پھل اور تیل دونوں کی زیادہ پیداوار حاصل ہوگی۔ ترکی کے شہر ازمیر کی طرز پر زیتون اور انگوروں کا ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا جانا چاہیے جس کا ہیڈ کوارٹر شمالی وزیرستان میں اور ذیلی دفاتر تمام سات ضلعوں اور ان کی ذیلی تحصیلوں میں ہوں۔

کسانوں کی تربیت اور انہیں مفت بیجوں کی فراہمی جیسے اقدامات بھی اٹھائے جانے چاہیئں۔ چھوٹے زمینداروں کو کم از کم اگلے دس سال تک آسان اقساط پر بلا سود قرضوں کی ضرورت ہے جس کے لیے انہیں ضمانتیں طلب کرنے کے طویل مرحلے سے نہ گزارا جائے۔ اس سے پرعزم نوجوانوں کو موقع ملے گا کہ وہ تخلیقی زراعت کی جانب بڑھیں۔

غذائی عدم تحفظ کے شکار خاندانوں کو سماجی و معاشی طور پر مضبوط کر کے انہیں ایک غذائی تحفظ کی حامل برادری میں بدلنے کے لیے انقلابی ثابت ہوسکتا ہے۔

مہمند ضلعے کی طرح جہاں فاٹا چیمبر آف کامرس نے سینکڑوں ایکڑ زمین پر ماربل سٹی قائم کی ہے، اسی طرح شمالی وزیرستان میں "اولیو آئل سٹی" پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ فاٹا کے لوگوں کے لیے ایک ون ونڈو آپریشن بلاشبہ مددگار ہوگا کیوں کہ زیتون سے منسلک زراعت، جس میں ٹیکنالوجی سے لے کر پودوں کی فراہمی، تیل نکالنے کے لیے پھلوں کی پراسیسنگ، ان کی قدر میں اضافے اور سیل پوائنٹس کے قیام سے سی پیک کے تناظر میں علاقائی منڈیاں جنم لیں گی۔

جانیے: فاٹا: مسلسل جنگ سے ذہنی امراض میں خطرناک اضافہ

اس خطے میں قدرتی اور نامیاتی غذائیں پیدا کر کے ایک بین الاقوامی منڈی بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے جس سے بہت ہی تھوڑے عرصے میں یہاں کی کسان برادری کی سماجی و معاشی صورتحال بدل سکتی ہے۔

انفراسٹرکچر، سڑکوں، ہسپتالوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی تیز تر تعمیر سے تمام ضلعے اور تحصیلیں فیض یاب ہوں گی۔ اسپورٹس کی بحالی اور پشاور سے لنڈی کوتل تک تاریخی ٹرین سفاری کی بحالی اور اس کی دیگر تمام اضلاع تک توسیع سے سیاحتی صنعت میں بین الاقوامی تعلقات بحال ہوں گے۔

اگر فاٹا میں غذائی تحفظ کو یقینی نہ بنایا گیا تو امن کا قیام مشکل ہوگا۔ یہ صرف تب ممکن ہے جب حکومت "فاٹا کی ترقی کے لیے ایمرجنسی" کے نفاذ کا اعلان کرے اور تمام ترقیاتی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اس کی تیز رفتار ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم دراڑوں پر توجہ دیں اور جہاں کہیں بھی ہمیں زرعی شعبے کی صلاحیت بڑھانے کے لیے مداخلت کی گنجائش نظر آئے تو وہاں مداخلت کریں تاکہ مستقبل کی نسلیں ذہنی سکون، پائیدار روزگار، اور خوشحال و ہم آہنگ زندگی گزار سکیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 10 جون 2013 کو شائع ہوا۔


فضل مولا زاہد سوات سے تعلق رکھنے والے زرعی سائنسدان ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں