زراعت صدیوں سے پنجاب کا اہم پیشہ رہا ہے۔ پنجابیوں کی بڑی تعداد چونکہ اس ذریعہ آمدن سے وابستہ ہے لہٰذا ان کی زیادہ تر آبادی کاشتکاری کی غرض سے دیہاتوں میں ہی آباد ہے۔

پنجاب کے زیادہ تر باسیوں کے بڑے شہروں سے رابطے ایک منڈی کی حیثیت میں ہیں، جہاں وہ اپنی زرعی اجناس کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔

موجودہ پنجابی دیہات اور اس کی سماجی ساخت واضح انداز میں 2 حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ پہلا زمیندار طبقہ جو براہِ راست کاشتکاری سے وابستہ ہے اور اس کے ذمہ ہے کہ وہ بوائی اور کٹائی کے سیزن میں کھیتوں میں بنیادی کارکن کی حیثیت سے موجود ہو۔ دوسرا کمی یا غیر کاشتکار طبقہ ہے، جو شاید براہِ راست کاشتکاری سے تو وابستہ نہیں ہے مگر اس طبقے کی حیثیت اس معاون کی ہے جس کے بغیر زراعت کا نظام ممکن نہیں ہوسکتا۔

کمی یا کارکن کسے کہتے ہیں؟

کمی یا کارکن طبقے کو دیہاتی سماج میں براہِ راست کاشتکار نہ ہونے کی بناء پر وہ سماجی برتری حاصل نہیں ہے جو ایک زمیندار کو ملتی ہے، تاہم وہ اپنی حیثیت میں زرعی نظام کا ایسا اٹوٹ حصہ ہے جس کی اس شناختی حیثیت نے اس نظام کو مضبوطی سے باندھ دیا ہے۔ زمین اور کاشتکاری سے وابستگی کی بناء پر ملنے والی سماجی عزت کے اس نظام نے قدیم زراعت کے اصول کو اس قدر مضبوط کردیا ہے کہ اگر روایتی زمینداری نظام کو یکسر توڑ نہ دیا جائے تو شاید ذات پات اور پیشوں سے شناخت رکھنے والا سماجی نظام بدلا نہ جاسکے۔

سماجی و سیاسی تناظر میں ایک روایتی طرز کے پنجابی دیہات میں یہ کارکن جنہیں عرف عام میں کمی کہا جاتا ہے بہت اہم اور بنیادی حیثیت کے حامل ہیں جو اپنے دیہات کی زرعی اور سماجی ساخت کو برقرار رکھنے کے کام میں مصروف ہیں۔

19ویں صدی میں سکھا شاہی دور کی کہانی

اگر جدید تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو 19ویں صدی میں سکھا شاہی کے دور میں بھی پنجاب کے دیہات کو اپنی روزمرہ زندگی جینے کے لیے اپنے کمیوں کی ہر وقت ضرورت رہا کرتی تھی۔ جہاں یہ لوگ زراعت کے لیے ہل اور درانتی جیسے بنیادی اوزار بنانے کے ساتھ ساتھ کپڑا بننے، سینے، رنگنے، جوتیاں بنانے اور اسی طرح کی دیگر ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے میں مصروف رہتے تھے۔

پڑھیے: جب انگریز آزاد پنجاب پر قابض ہوا

اس تحریر میں 19ویں صدی کے روایتی پنجابی زرعی نظام میں کمیوں اور تفریح مہیا کرنے والی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس نظام میں اہمیت اور کردار کو سمجھنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔ اس تجزیے سے ہم یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ یہ نظام کس قدر مضبوط تھا کہ آج بھی اپنی اسی شکل میں برقرار ہے۔

19ویں صدی میں روایتی پنجابی دیہات میں زمیندار کے علاوہ لوہار، ترکھان، نائی، کمہار، چمار، مصلی، میراثی، نٹ، جولاہا اور ماچھی جیسے دیگر پیشے بھی موجود تھے اور یہ سماج میں کمتر سمجھے جاتے تھے۔ جو لوگ ان پیشوں سے وابستہ تھے ان کے لیے یہ پیشے ہی ان کی ذات تھی اور اسی مناسبت سے وہ سماج میں کمتر حیثیت کے مالک تھے۔

خدمت گاروں کو کمتر کیوں سمجھا جاتا تھا؟

زراعت میں ان افراد کی حیثیت بنیادی تھی اور ان کے بغیر زرعی نظام کا چلنا ناممکن تھا لیکن چونکہ ان کی حیثیت خدمت گار کی تھی لہٰذا انہیں کمتر سمجھا جاتا تھا۔ یہ افراد دیہات کے کسی ایک فرد کے ملازم شمار نہیں ہوتے تھے بلکہ ہر پیشہ ور اپنی اپنی صلاحیتوں اور فن کے مطابق پورے گاؤں کی خدمت کرتا تھا اور بدلے میں فصل آنے پر زمیندار اور دیگر کمیوں سے اپنا حصہ وصول کرتا تھا۔ محنت کا حق وصول کرنے کا یہ طریقہ ’سیپداری‘ کہلاتا تھا اور فصل کی کٹائی کے موقعے پر ہر کمی زمیندار سے اپنی سیپ وصول کیا کرتا تھا جو کہ مجموعی پیداوار کا 15 سے 20 فیصد تک بن جاتا تھا۔

خدمت گاروں کی ذمہ داریاں

اہم سماجی موقعوں، جیسے بچے کی پیدائش، فوتگی، خوشی، غمی، فصلوں کی کاشت یا کٹائی کے دوران ان پیشہ ور کمیوں کو اپنی صلاحیت کے حساب سے کام کرنا ہوتا تھا اور پھر وہ اپنی محنت کے بدلے معاوضہ وصول کیا کرتے جسے ’لاگ‘ کہا جاتا تھا۔

یہ پیشہ ور لوگ بھی اپنے کام کرنے کی صلاحیت کے مطابق سماج میں مختلف درجوں کے مالک سمجھے جاتے تھے۔ مثلاً سنار، لوہار، ترکھان، جولاہے اور کمہار معاشرے میں عزت دار کمی تھے جبکہ چمار اور موچی کم تر درجے کے کمی شمار ہوتے تھے۔ نچلے درجے کے کمیوں کو ہندوؤں کے ذات پات کے نظام میں شودھروں کی حیثیت تھی۔ جولاہے اور کمہار عزت دار کمیوں میں کم درجے کے حامل تھے جبکہ انہیں چماروں اور موچیوں سے بڑا مقام حاصل تھا۔

چمار اور موچی کم تر درجے کے کمی شمار ہوتے تھے
چمار اور موچی کم تر درجے کے کمی شمار ہوتے تھے

کمی اگرچہ زراعت کے کام میں براہِ راست شریک نہیں ہوتے تھے مگر ان کی بنائی ہوئی اشیاء کو زراعت میں بنیادی اوزار مانا جاتا تھا۔ ترکھان کاشتکاری کے دنوں میں ہل بنانے، مرمت کرنے اور کنویں کے پہیے بنانے کا کام کرتے تھے جبکہ لوہار درانتی کا پھل بنانے، کسی بنانے، پھاوڑا اور کلہاڑا بنانے کا کام کرتے تھے۔

کمہاروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ دیہاتوں میں اینٹ بنانے کا کام کریں اور اپنے گدھوں پر سامان لاد کر انہیں باربرداری کا کام بھی دیا جاتا تھا۔ جولاہے کپڑے بننے کا کام کرتے تھے۔ سنارے سونے اور دیگر دھاتوں کے زیورات بنانے کا کام کرتے تھے۔ ان تمام کاریگر کمیوں کو سیپداری میں بھی معاوضہ ملتا تھا جبکہ اگر کسی قسم کی کوئی خصوصی تقریب ہوتی جیسے کہ شادی بیاہ تو یہ لوگ اپنی صلاحیتوں کے مطابق، چارپائیاں، پیڑھیاں، دروازے، صندوق، جوتے اور زیورات وغیرہ بنانے کا کام کرتے جس کا علیحدہ معاوضہ دیا جاتا تھا۔ کمہاروں کے گدھے شادی بیاہ کا سامان اور جہیز ڈھونے کے کام بھی آیا کرتے تھے۔

زراعت میں معاونت کرنے والے مخصوص کمیوں کے علاوہ بھی کمی تھے جو سماجی خدمت کرنے پر مامور تھے۔ ان میں درزی، راج مزدور، نائی، چھمبا، ماچھی، جولاہے، پینجے، نٹ اور ملاح شامل تھے۔ درزی کپڑے سیتے، راج مزدوروں کے ذمے مکانات کا تعمیراتی کام تھا۔ نائی بال کاٹنے، داڑھی مونڈنے، مسلم دیہاتوں میں ختنے کرنے اور پیغام رسانی کا کام کیا کرتے تھے۔

پڑھیے: پنجابی زبان کے فروغ میں ایک گردوارے کا کردار

چھمبے کپڑوں پر رنگائی کا کام کرتے تھے، ماچھیوں کے ذمے تھا کہ وہ تندور لگائیں اور روٹیاں پکا کر دیں، جبکہ ان کی عورتیں دایہ ہوا کرتی تھیں۔ جولاہے کپڑے بُننے کا کام کرتے تھے۔ پینجوں کے ذمے تھا کہ وہ کپاس کو پینجیں اور اس کے بستر بنائیں۔ نٹ پراندے بنانے اور بید کی لکڑی سے گھر میں استعمال ہونے والی دیگر چیزیں مثلاً مرغیوں کو بند کرنے کے چھکو بنانے کا کام کرتے تھے۔ ملاح کے ذمے کشتی چلانا ہوتا تھا۔

ماشکی اور کہار بھی 2 پیشے تھے جو پانی پلانے، پہنچانے اور عورتوں کو لے کر آنے جانے کا کام کرتے تھے۔ دھوبی کے ذمے تھا کہ وہ گاؤں کے لوگوں کے کپڑے دھوئے، قصبوں اور شہروں میں بھی یہ پیشہ بہت آمدنی والا تھا۔ دھوبی اپنے گدھوں پر گھروں سے گندے کپڑے اکٹھا کرتے اور گھاٹ پر لے جا کر دھویا کرتے تھے۔

ترکھان کاشتکاری کے دنوں میں ہل بنانے، مرمت کرنے اور کنویں کے پہیے بنانے کا کام کرتے تھے
ترکھان کاشتکاری کے دنوں میں ہل بنانے، مرمت کرنے اور کنویں کے پہیے بنانے کا کام کرتے تھے

پنجاب کے سماج میں انتہائی نچلے درجے پر چوڑہے اور مصلی ہوا کرتے تھے۔ یہ قصبوں اور دیہاتوں میں صفائی اور مویشیوں کی دیکھ بھال کا کام کرتے تھے۔ کھیتوں میں مزدوری بھی انہی لوگوں کے ذمے ہوتی تھی اور یہ زمیندار سے ہر ششماہی پر اپنی خدمت کے بدلے سیپدار کے تحت معاوضہ لیا کرتے تھے۔

سکھ مذہب میں داخل ہونے والے

سکھوں میں اس قبیلے کے لوگوں کو مذبی اور رگریتا کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ شودھروں اور مصلیوں سے ہی سکھ مذہب میں داخل ہوئے تھے۔ سکھ مذہب کے گرو تیج بہادر کے حکم پر یہ لوگ بھی اپنے بال بڑے رکھتے تھے۔ ان لوگوں کی سکھ مذہب میں شمولیت سے ان کی سماجی حیثیت بڑھی اور ان کی کافی تعداد سکھ فوج میں بھی شامل ہوئی۔ دیہات کی معیشت میں ان لوگوں کی بہت اہمیت تھی کیونکہ یہ زمیندار کے لیے کارکن کے ناطے تمام کام انجام دیا کرتے تھے۔

اسی قبیلے کے وہ لوگ جو ’رامداسیہ‘ کہلاتے تھے انہیں سکھوں کے گرو رام داس نے سکھ مذہب میں شامل کیا تھا۔ یہ دیہات میں بیگار کرتے تھے، شادی بیاہ پر مہمانوں اور باراتیوں کا سامان اٹھا کر ایک سے دوسری جگہ لے جانے کا کام ان کے ذمہ ہوتا۔ تقریبات کے لیے استعمال ہونے والے ’جنج گھر‘ کی دیکھ بھال اور صفائی کا کام بھی انہی کے ذمے ہوتا تھا۔

اہم ذمہ داری ادا کرنے والے خدمت گار

یہ لوگ راج مزدور کے ساتھ مل کر مکانات کی تعمیر میں مزدوری کیا کرتے تھے۔ ان کی خدمت کی ادائیگی کا نظام لاگ کہلاتا تھا اور لاگی کے نظام میں نائی کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ بال بنانے اور داڑھی مونڈنے کے علاوہ نائی کے ذمہ تھا کہ وہ مہمانوں کو تمباکو مہیا کرے اور برہمن یا مولوی کے ساتھ مل کر شادی بیاہ کی نسبت طے کرے۔

شادی کے موقع پر بھی ان کے ذمے کچھ خاص کام ہوتے تھے، مثلاً دولہا دلہن کے کپڑے لے کر آنا اور انہیں تیار کروانا۔ دلہے کو نہلائی دھلائی کا کام مرد نائی کرتا تھا جبکہ ان کی عورتیں دلہن کے لیے یہ خدمت انجام دیا کرتی تھیں۔ دلہن کی رخصتی کے وقت ان عورتوں میں سے ایک اس کے ساتھ بھی جایا کرتی تھی۔

ان کے اس خصوصی خدمت گار ہونے کی وجہ سے لوگ انہیں راجہ بھی کہہ کر بلاتے تھے تاکہ انہیں اپنا آپ عزت دار لگے۔ دیہاتوں میں سرجری کا کام بھی یہی نائی ہی کیا کرتے تھے۔

نائی کی حیثیت دیہات میں دھوبی کے برابر جبکہ لوہار سے نیچے تھی۔ اس سماجی نظام میں چوہڑے سب سے نیچے تھے۔ مسلم دیہات میں نائی مسلم، ہندو دیہات میں نائی ہندو، جبکہ سکھ دیہاتوں میں نائی سکھ ہوتا تھا۔ سکھوں میں نائی کو نہارا کہا جاتا تھا۔ نائیوں کا پیشہ اتنا اہم تھا کہ اس نے ایک مضبوط قوم کی شکل اختیار کرلی تھی اور برہمنوں اور کھتریوں کے سماجی نظام میں ان کی اہمیت اور بڑھ گئی تھی۔

پڑھیے: تیغ بہادر اور اورنگزیب کی کہانی سے مغل-سکھ تاریخ اخذ ہوتی ہے

ایسی قوموں کی بھی بہت اہمیت ہے جو لوگوں کو تفریح پہنچانے کی ذمہ دار تھیں۔ یہ لوگ بڑے بوڑھے جوان مرد و خواتین کے لئے تفریح کا سامان کرتے تھے۔ یہی لوگ گلوکاری، نقالی، بھانڈ پن اور نسب بھی یاد رکھا کرتے تھے۔ بھاٹ اور چران ہندو ماہر انساب تھے جو کہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے موقع پر اپنے مالک کا نسب پڑھ کے سنایا کرتے تھے۔ اصل میں تو انہیں برہمنوں اور راجپوتوں کے سلسلہ نسب یاد رکھنے کا کام سونپا گیا تھا تاہم پنجاب کے دیہات میں لوگ جاٹوں کے حسب نسب کو بھی یاد رکھتے تھے۔ یہ خود کو برہمنوں کی اولاد کہتے تھے اور یہ بھاٹ ہمیشہ ہی ہندو ہوا کرتے تھے، چاہے ان کے گاہک مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔

ڈوم اور میراثی بھی بھاٹوں ہی کی طرح حسب نسب یاد رکھتے تھے مگر یہ موسیقاری یا گلوکاری کی نسبت حسب نسب پر زیادہ توجہ دیا کرتے تھے۔ یہ بہت چالاک، ہوشیار اور ذہین ہوتے اور ان کی یادداشت بھی کافی اچھی ہوتی۔ ان کے پاس ہر وقت لطیفہ یا مزاحیہ فقرہ تیار ہوتا جس کے ذریعے یہ لوگوں کو ہنسایا کرتے تھے۔ شادی بیاہ کے مواقعوں پر آتے اور دلہا دلہن کے حسب نسب کی شان بیان کرتے تھے۔ ان کی بہادری اور سخاوت کے واقعات سنایا کرتے تھے اور اگر ان کی صحیح خاطر مدارت نہ کی جاتی تو یہ لوگ پھر ان وارداتوں اور قصوں کا حال طنزاََ بھی سناتے جو دلہا دلہن کے بزرگوں نے انجام دی ہوتی تھیں اور جنہیں لوگ بھول بھال چکے ہوتے تھے۔

ڈوم ہندو تھے اور یہ امرتسر اور لاہور کے علاقوں میں آباد تھے۔ میراثیوں کے تمام قبیلے مسلمان تھے، لفظ میراث عربی زبان سے نکلا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ترکہ۔ پنجابی زبان میں یہ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا جو لوگ وفات پاچکے لوگوں کی کہانیاں یاد رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ ہنسی مذاق اور قصہ گوئی کرلیتے ہیں۔

ان کے قصے بعض اوقات فحش ہوا کرتے تھے۔ یہ ڈھول اور شہنائی بجایا کرتے، انہیں شادیوں پر بلایا جاتا جہاں یہ لوگ مہمانوں اور میزبانوں سے ہنسی مذاق کرتے تھے۔ انہیں مزاحیہ جملے بولنے میں مہارت تھی اور یہ بہت بروقت مذاق کیا کرتے تھے۔ ان کی عورتیں جو ڈومنیاں یا میراثن کہلاتی تھیں وہ بھی اس مہارت میں کسی طور کم نہیں تھیں۔ یہ عورتیں بھی شادیوں پر گانے گایا کرتی تھیں جو عموماً مہمانوں کے لیے لطف کا باعث ہوتے تھے۔ یہ لوگ اپنی تیز یاداشت کی بناء پر دلہا دلہن کے خاندان کی ساری تاریخ یاد رکھے ہوئے ہوتے تھے اور انہیں ان علاقوں کی تاریخ بھی زبانی یاد ہوا کرتی تھی۔

برہمن اور نائیوں کے ہمراہ انہیں بھی شادی بیاہ کی گفتگو میں شریک کیا جاتا تھا جہاں وہ اپنے مالک کی تعریفیں کرتے تھے۔ انہیں لاگی کے نظام میں لاگ کے تحفے ملا کرتے تھے۔ بعض میراثی رباب بھی بجایا کرتے تھے، انہیں ربابیہ کہا جاتا تھا۔ یہ گرو گرنتھ صاحب سے مذہبی گیت پڑھ کے سناتے تھے۔ بڑے بال رکھ کر سکھوں جیسا حلیہ اپنا لیا کرتے تھے۔ ڈھاڈھیے بھی اسی درجے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تقریبات میں دو، دو کی ٹولیوں میں بٹ کر بلاد گایا کرتے تھے۔ ایک تالبور بجایا کرتا تھا جبکہ دوسرا سارنگی، یہ لوگ جنگوں کے قصے اور اس میں پنجاب کے بہادر سورماؤں کے قصے گایا کرتے تھے۔

پیشہ ور مذاقیوں کا ایک اور گروہ بھی تھا جو خانہ بدوش تھا۔ یہ لوگ شہر شہر گھومتے رہتے اور ہفتہ دس دن کے لیے کہیں ٹھکانہ کرلیتے تھے۔ ان میں مختلف طرح کے فنکار تھے جو اپنے شعبدے دکھا کر لوگوں کو خوش کیا کرتے۔ ان لوگوں میں بہروپیے، بازی گر، قلندر، قصہ گو اور ناٹکیے شامل ہوتے تھے۔ بہروپیا بھیس بدل کر لوگوں کی محفل میں آجایا کرتا تھا اور پھر اونچی آواز میں ڈرا دھمکا کر انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس نے جھوٹ موٹ کی چھریاں اپنے جسم میں گھسا رکھی ہوتی تھیں اور تماشا ختم ہونے پر لوگوں سے پیسے مانگا کرتے تھے۔ بازی گر رسی پر چلنے کا کرتب دکھایا کرتے تھے۔ بازی گر فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کھلاڑی۔

قلندر وہ تماشا گر تھا جو بندروں اور ریچھوں کا تماشا کرتے تھے، یہ لوگ ڈگڈگی بجا کر لوگوں کو متوجہ کرتے تھے اور جہاں بھی لوگ اکٹھا ہوتے انہیں تماشے دکھانے لگ جاتے۔ تماشا دیکھنے کے بعد لوگ انہیں پیسے یا جنس کی شکل میں بخشش دیا کرتے تھے۔ قلندر ہمیشہ مسلمان ہوا کرتے تھے۔

سانپوں سے تماشا دکھانے والے سپیرے کہلاتے تھے، انہوں نے یہ فن اپنے اجداد سے سیکھا ہوتا تھا۔ یہ لوگ جنگلوں میں نکل جاتے اور وہاں بین بجاتے۔ سانپ بین کی آواز سن کے چلے آتے تھے اور پھر یہ لوگ انہیں پکڑ لیتے تھے۔ سانپوں کو پکڑتے وقت ایک قسم کھائی جاتی تھی کہ اسے نقصان نہیں پہچایا جائے گا اور یہ بھی کہ ایک خاص مدت کے بعد اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ اس عہد کو مذہبی ذمہ داری سمجھ کر پورا کیا جاتا تھا۔ سپیرے اپنے آپ کو سانپوں کے زہر کا عادی بنانے کے لیے ایک خاص قسم کی جڑی بوٹی کھاتے تھے جس کا نام اپنے قبیلے سے باہر کسی کو بھی نہیں بتایا جاتا تھا۔ یہ لوگ بین بجا کر اپنے کوبرا سانپ کو نچواتے اور لوگوں کو تفریح فراہم کرتے۔

سانپوں سے تماشا دکھانے والے سپیرے کہلاتے تھے
سانپوں سے تماشا دکھانے والے سپیرے کہلاتے تھے

اس بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سماج میں اور اس کی معاشی سرگرمیوں میں ایک ساختیاتی اور عملی تسلسل تھا جو مغلیہ عہد سے چلا آرہا تھا۔ سکھوں کے راج میں اگرچہ لاہور کے تخت پر اور اشرافیہ طبقے میں اکثریت پنجاب سے تعلق رکھتی تھی۔ ہمارے موضوع میں شامل طبقات 18ویں صدی کے سماجی درجے میں نچلے طبقے کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔

سکھ جاٹوں کے ساتھ ساتھ اب نئی قومیں مثلاً نائی، برہمن اور کھشتری بھی بااثر طبقوں میں شمار ہوتے تھے۔ مغلوں کے زمانے کی منفرد اور علیحدہ سی ہوکر رہنے والی اشرافیہ اب ماضی کا قصہ بن چکی تھی۔

مذہبی سطح پر برہمنوں، ملاؤں، بھائیوں، شیخوں اور صوفیوں نے ثقافتی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے لوگوں کی زندگیوں کو اپنے قابو میں رکھا ہوا تھا۔ اس زمانے کے پنجاب میں معیشت پر اختیار روایتی طور پر بنیا، ارورا اور کھتریوں کا تھا۔ انہیں ریاست کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ ساخت کے اعتبار سے پنجاب کے سماج میں نہ صرف ایک تسلسل تھا بلکہ بدلتے ہوئے نظام میں ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت بھی موجود تھی۔

اس سارے ڈھانچے میں پیشہ ور قوموں کو نچلے طبقے کی تحقیر آمیز (تفریح آمیز) ذاتوں کو پنجاب کے دیہات میں اہم مقام حاصل تھا، ان کی مدد کے بغیر دیہاتی معیشت کا پہیہ چلانا ممکن نہیں تھا۔ اگرچہ وہ سماج میں کمتر درجے پر تھے لیکن ان کی محنت اور قابلیت سے ہی سماج کا نظام چل رہا تھا۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ زرعی کاموں میں ان کی شمولیت بھی بہت اہم تھی۔ تفریح مہیا کرنے والے لوگ نسل در نسل ان شعبوں سے وابستہ چلے آرہے تھے ان کے زرخیر دماغ ہر موقعے کی مناسبت سے قصے کہانیوں، جگتوں اور گیتوں سے بھرے رہتے تھے۔

خلاصہ

اگر بنظر غائر پنجاب کے دیہی نظام کے گزشتہ 300 سال کا مطالعہ کریں تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آج بھی پنجابی دیہات اسی طبقاتی تفریق میں بٹا ہوا ہے جو آج سے ایک سو سال پہلے انگریز کے راج میں اور اس سے بھی ایک سو سال پہلے سکھا شاہی اور اس سے قبل مغل عہد میں موجود تھی۔ یہ تفریق ذاتوں پر قائم ہے اور ذاتیں ان پیشہ ور لوگوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حساب سے ترتیب دی گئی تھیں۔

انگریز راج سے قبل پیشہ بدل کر ذات بدلی جاسکتی تھی مگر ان کے عہد میں کاغذی شناخت کا نظام متعارف کروایا گیا اور یوں راج نے پیشوں پر تقسیم سماج پر ذاتوں کے مستقل ٹھپے لگا دیے۔ آج یہی نظام برادری کہلاتا ہے اور ملک میں ہونے والے ہر طرح کے انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ جب تک یہ نظام قائم ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت تک سماج میں جدت اور منصفانہ طرز حیات کے بہت سے سماجی اہداف حاصل کرنا ازحد مشکل ہے۔

حوالہ جات

ڈی ایبٹسن کی کتاب ’دی ہسٹری آف کاسٹس ان پنجاب‘

اریب اظہر کا مضمون ’پراؤڈ ٹو بی اے مراثی‘

پی ٹنڈن کی کتاب ’پنجابی سنچری‘

تبصرے (2) بند ہیں

Ahmed Zarar Jun 23, 2018 11:36am
KHOOBSURAT ! bus kuch aur nahi kahna.
farooq Jun 24, 2018 10:28am
Very impressive, accurate, concise and simple but extremely important piece of writing. La jawab.