اسلام آباد: ملک کی دو بڑی سیاسی اور ایک دوسرے کی حریف جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مابین انتخابات سے متعلق چند مسائل پر قربتیں بڑھنے لگی ہیں، دونوں پارٹیوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) اور نگراں حکومت کی جانب سے انتخابی مہم کے لیے سازگار ماحول فراہم نہ کرنے پر اعتراضات اٹھادیے ہیں۔

سینیٹ ارکان نے انتخابات میں فوج کو ’کام کا بڑا حصہ‘ دینے پر سوالات اٹھائے اور سینیٹ چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر اور ای سی پی سیکریٹری کو طلب کرکے آئینی حق ادا کرنے میں ’ناکامی‘ سے متعلق وضاحت طلب کریں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کی غیر ملکی مبصرین کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوششیں

واضح رہے مسلم لیگ (ن) نے عدالیہ، ای سی پی، قومی احتساب بیورو(نیب) سے متعلق اعتراضات اٹھائے تھے تاہم دو روز قبل وفاقی تحقیقات ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کو ’جعلی بینک اکاؤنٹ کیس‘ میں طلب کرنے کے بعد اب پی پی پی نے مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں کھڑے ہو کر تشویش سے بھر خدشات پیش کردیئے۔

آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر ڈالنے کے خلاف پی پی پی کے سینیٹرز نگراں حکومت پر سخت نالاں تھے، انہوں نے کہا کہ نگراں وزیر داخلہ محمد عظیم خان نے ایوان کے فلور پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پی پی پی رہنماؤں کے نام ای سی ایل میں ڈالا گیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ ایسے کوئی احکامات جاری نہیں کیے گئے۔

سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے ان لوگوں سے معافی مطالبہ کی جنہوں نے پارٹی رہنماؤں کی ’توہین‘ کی۔

سینیٹرز نے امن و امان کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار اور نگراں حکومت پر تنقید کی کہ وہ ’انتخابی امیدواروں کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام‘ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات 2018: الیکشن کمیشن نے تمام بلدیاتی حکومتیں معطل کردیں

دوسری جانب سینیٹرز نے نیب پر الزام عائد کیا کہ وہ ’اسٹیبلشمنٹ‘ کا آلہ کار بن چکا ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ اور پی پی پی مرکزی کے رہنما میاں رضا ربانی نے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کو متنازع قرار دے.

میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ عام انتخابات وقت سے قبل ہی متنازع ہو چکے ہیں جس کی وجہ انتخابی عمل میں مداخلت اور الیکشن کمیشن کے آئینی کردار میں ناکامی ہے۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی میاں رضا ربانی کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’ہمارے لوگوں پر وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا، جبکہ ہماری جماعت کو انتخابی مہم سے روکا جارہا ہے‘۔

مزید پڑھیں: ’چیف جسٹس، الیکشن کمیشن لیگی کارکنان کےخلاف بلاجواز کارروائی کا نوٹس لیں‘

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے الزامات کو مسترد کیا کہ ان کی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل اور انہوں نے کہا کہ ایسا تصویر پیش کیا جارہا ہے کہ ای سی پی تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ یکساں برتاؤ نہیں کررہا۔

انہوں نے واضح کیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے ایک بار مرتبہ پھر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال لیے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے مصدق ملک نے ملک کے بیشتر حصوں میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو گرفتار کیے جانے پر خدشات کا اظہار کیا ہے اور الزام عائد کی کہ سندھ میں نیا الائنس بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’الیکشن میں جیپ جہموریت کو ٹکریں مار رہی ہے‘، ابتدائی رپورٹ کے بعض حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ متعدد آزاد امیدوار ’جیپ‘ کے انتخابی نشان پر انتخابات لڑ رہے ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ ٹکٹ پر منتخب جماعت الحدیث کے پروفیسر ساجد میر سیاسی جماعتوں سے کہا کہ وہ ایک ’ادارے‘ کی مداخلت کے خلاف متحد ہوجائیں۔


یہ خبر 13 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں