اِدھر برسات کا آغاز ہوا اور اُدھر پاکستان کے دارالحکومت میں جگہ جگہ چھاتے بیچنے والوں نے اپنے اسٹالز لگا لیے۔ بحیثیت ’سمجھدار‘ اور ’دور اندیش‘ قوم ہم ہمیشہ ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور بعض اوقات کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ بارش ختم ہوتے ہی ان اسٹالز پر بچوں کی ڈرائینگ کی کتابیں، ٹوپیاں، ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور پتہ نہیں کیا کیا بکنے کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔

ہمارا شمار بھی انسانوں کی اس قسم میں ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ لالچی انسانوں کی اس قسم میں کہ ذرا سے آسمان کے کناروں پر بادل نظر آئے اور ہم نے بارش اور ٹھنڈی ہواؤں کے خواب دیکھنا شروع کر دیے اور ہائیکنگ کی تیاری پکڑی؛ بوٹ کے تسمے کسے، گاڑی کا اسٹیئرنگ سنبھالا اور مارگلہ کی ٹریل سکس کی جانب رواں دواں ہوئے۔

ابھی گاڑی مناسب جگہ پارک کر ہی رہی تھی کہ پاس سے شورشرابے کی آواز آنا شروع ہوئی۔ پہلے خیال آیا کہ شاید کچھ دوستوں کی بحث ہو رہی ہے یا پھر سیاسی دھینگا مشتی۔

آگے بڑھنے کا ارادہ کیا لیکن دیکھا کہ 2 لڑکے ایک تیسرے لڑکے کو بازوؤں سے زبردستی پکڑ کر اب ایک مخصوص سمت کی جانب رواں تھے۔ وہ بیچارہ مسلسل چلائے جا رہا تھا۔ بس اتنی بات پلے پڑی کہ ’اگر کچھ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی تو ہیں‘۔ دل سے آواز آئی کہ یہ کوئی عام بات نہیں بلکہ ہرے، کالے اور لال کا کوئی معاملہ ہے (یعنی ان جھنڈوں کا جو ہر پانچ سال بعد اتنی وافر تعداد میں ملتے ہیں کہ کچرے دان تک میں نظر آتے ہیں)۔

پڑھیے: انتخابی ساون اور امیدوار پتنگے

سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ان دونوں لڑکوں کی ٹی شرٹس پر ایک واضح لفظ لکھا دکھائی دیا: 'شعور'۔ اب تو تجسس بڑھتا ہی چلا گیا اور فیصلہ کیا کہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے۔ پہلا خیال یہ آیا کہ شاید کوئی آزاد امیدوار اپنی سیاسی مہم اس نام سے چلا رہا ہے کیوں کہ یہ تو طے ہے کہ الحمدللہ ہمارے ہاں سب کو اپنے علم پر مکمل غرور حاصل ہے۔

خیر جناب! گاڑی لاک کی اور ایک جاسوس کی طرح ان کا پیچھا کرنا شروع کیا تو دیکھا کہ وہی شعور کے حامل دو افراد ایک کیمپ میں داخل ہوئے اور وہ ’شکار‘ (جی وہی نوجوان) کافی تگ و دو کے بعد اندر لے جایا گیا۔ لیکن حیرت سے میری آنکھیں باہر اور زبان دانتوں تلے دب گئی جب تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ ’شکار‘ کیمپ سے باہر آیا تو تبدیلی واضح طور پر نظر آنے لگی۔ یعنی اب شعور کا لفظ اس کی قمیض پر بھی لکھا تھا اور وردِ زبان 'نیا پاکستان' تھا۔ (اس نئے پاکستان سے قطعاً کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی جانب اشارہ نہیں۔ میری ناقص رائے میں اب ہر جماعت ہی نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے لیکن نہ جانے کس کے لیے؟)

تجسس ہوا تو کیمپ تک پہنچی۔ ابھی جھانکنا شروع ہی کیا تھا کہ اچانک زور کا جھٹکا لگا۔ کچھ ہوش آیا تو اردگرد بہت سے شعور کھڑے پائے (مطلب شعور والی قمیضیں پہنے اور چہرے پر پُراعتماد مسکراہٹ سجائے روشن آنکھوں والے لوگ)۔

اب میں نے ذرا اپنے صحافی ہونے کا ثبوت دینے کے لیے کارڈ ڈھونڈنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ اس جاسوسی کے چکر میں وہ کہیں گاڑی ہی میں رہ گیا ہے۔ اسی دوران ایک صاحب نے سوال کیا! ووٹ کس کو دو گی؟ (گو آنکھوں کے آگے نہ جانے کیوں بوری بند اندھیرا آنے لگا، لیکن پھر خود کو یقین دلایا کہ یہ دارالحکومت ہے الحمدللہ) ڈرتے ڈرتے کہا ’اسے جس کا حق ہے‘۔

’او بی بی، سیدھی زبان میں بتائیں، مہر کہاں لگائیں گی‘؟

واللہ ڈر کے مارے آواز ہی بند تھی، لیکن پھر بھی جان کی امان پا کر فوراً کہا، ’مجھے بادشاہ پسند ہے، حکمرانی اسی کو جچتی ہے‘۔ پانی کے زور کے چھینٹے میرے منہ پر پڑے اور کسی نے کہا۔ ’محترمہ اب یہاں جنگل کا قانون نہیں چلتا!‘

ناجانے کیوں مسکراہٹ لبوں پر آگئی کہ ’مطلب پہلے یہاں جنگل کا قانون تھا؟‘

پاکستان بھر میں جاری سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم ہو یا جوڈیشل ایکٹیوزم، اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ ہو یا ووٹ کو عزت دو کا سلوگن، نئے پاکستان کے نعرے ہوں یا پھر وہی 7 دہائیوں سے روٹی کپڑا اور مکان کا دھوکہ، شعور کے قطرے نہ تو پہلے کارگر ثابت ہوئے نہ اب کسی معجزے کی توقع۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ قطرے بھی پولیو کے قطروں کی طرح زبردستی ہی انڈیلے جا رہے ہیں۔

کاش شعور کے یہ قطرے ووٹرز کے ساتھ ساتھ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں، مقتدر قوتوں اور اشرافیہ کو بھی پلائے جاسکتے، جو حقِ حکمرانی پر تو نازاں ہیں مگر 22 کروڑ عوام میں پھیلی مایوسی، غربت، بیروزگاری، اقتصادی بدحالی اور نہ جانے کیا کیا مصیبت جھیلتی عوام پر رحم کرنے کو تیار نہیں۔

میں تقریباً نیم بے ہوشی ہی میں تھی کہ میرے گرد 2 عدد خواتین آئیں جنہوں نے مجھے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا، کیونکہ میرے مکمل بے ہوش ہونے کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔ پھر اچانک ایک اور خاتون آئیں اور ڈراپر میرے منہ تک لائیں اور کہا ’محترمہ! مومن وہ ہے جو ایک سوراخ سے بار بار ڈسا نہیں جاتا مگر ہم بحیثیت قوم ہر بار خود کو پیش کر دیتے ہیں، انہی لوگوں کے سامنے جو پہلے کئی بار آزمائے جاچکے ہیں۔ مگر اب نہیں۔‘

’محترمہ، منہ کھولیے اور شعور کے قطرے پی لیں۔ آپ باشعور ہوں گی تو شاید کسی شعور والے کو منتخب کریں گی، وہ بھی زبردستی کے قطروں کے بغیر!‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں