پشاور: کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی (ٹی این ایس ایم) کے سربراہ مولانا صوفی محمد کو 15 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے رہا کردیا تھا تاہم اب وہ اپنے آبائی علاقے میں نوجوانوں اور حمایتیوں کی توجہ حاصل کرنے میں مکمل طورپر ناکام ہو چکے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق مولانا صوفی محمد کے خلاف حکومت مخالف نفرت انگیز تقریر کرنے اور پولیس اسٹیشن پر حملے کا سوات میں 30 جولائی 2009 کو مقدمہ درج ہوا تھا۔

مولانا صوفی محمد کے آبائی علاقے تحصیل میدان میں لوگوں نے ڈان کو بتایا کہ مولانا محمد صوفی کے حلقہ احباب میں صرف چند بزرگ ہی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ٹی این ایس ایم کے بیشتر کارکنان اپنے رہنما کی گرفتاری کے بعد روپوش ہو گئے تھے۔

لوئر دیر میں تیمرگرہ سے 35 کلومیڑ دور کیمبربازار سے متصل مولانا صوفی محمد کا مدرسہ قائم ہے جہاں پر کبھی ان کے حمایتیوں اور ہمدردوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی تھی تاہم اب ادھر شاذ و نادر ہی کوئی موجود ہوتا ہے اور لوگوں کے محض گزرنے کا راستہ بن چکا ہے۔ \

مقامی لوگوں کے مطابق صوفی محمد اپنے حمایتیوں کا اعتماد کھو چکے ہیں انہوں نے ہزاروں نوجوانوں کو افغانستان میں امریکیوں فوجیوں کے خلاف جنگ پر روانہ کیا لیکن ان میں کوئی بھی واپس نہیں آیا۔

ٹی این ایس ایم کے 90 فیصد کارکنان جاں بحق ہو چکے ہیں اوران کے اہل خانہ کو اب صوفی محمد کی تعلیمات میں کوئی دلچسپی نہیں رہی جو ہمیشہ قانون شکنی باتیں کرتے ہیں اور تعلیم سے محروم نوجوان طبقے کو عالمی طاقتوں کے مقابلے میں روایتی ہتھیاروں سے لڑنے کے لیے اکساتے ہیں۔

صوفی محمد کے علاقے میں سیاسی جماعت کے انتخابی امیدواروں نے بتایا کہ ٹی این ایس ایم کے سابق رہنما اور ارکان سیاسی جماعتوں کا حصہ ہیں اور انہوں نے الزام عائد کیا کہ صوفی محمد لوگوں کو گمراہ کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ آبائی علاقے میں صوفی محمد کے لیے کوئی ’خوش آمد‘ کہنے والا نہیں کیونکہ لوگ اب انہیں ناپسند کرتے ہیں۔

کالے رنگ کی پگڑی پہنے فتح رحمٰن نے بتایا کہ انہوں نے اپنے رشتے داروں کے ہمراہ صوفی محمد کے حق میں نعرے لگائے اور ملک میں شرعی قانون نافذ کرنے کی بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں انہیں بہت عزت ملا کرتی تھی لیکن 2009 میں گرفتاری اور 2018 میں رہائی کے بعد انہیں پشاور ہاؤس میں رکھا گیا جہاں انہیں کسی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔

مقامی افراد کے مطابق تحریک نفاذ شریعت محمدی 1992 میں موجود میں آئی لیکن اس کے حواریوں کی تعداد کیمبر ویلی تک ہی محدود رہی۔

جماعت اسلامی کے ایک عہدیدارنے بتایا کہ لوئر دیر میں 80 کی دہائی میں صوفی محمد پارٹی کارکن کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔

بعدازاں انہوں نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی۔

لوگوں نے بتایا کہ صوفی محمد کو کرم ایجنسی سے گرفتار کیا گیا اور دسمبر 2001 میں افغانستان سے پاکستان لایا گیا، انہوں نے 10 ہزار پاکستانی نوجوانوں کو امریکا کے خلاف جنگ کے لیے آمادہ کرکے افغانستان بھیجا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں