لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com
لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: [email protected]

انتخابات 2018ء میں کرکٹ کی تشبیہات استعمال کیے بغیر نہیں رہا گیا، نہ صرف اس لیے کہ عمران خان خود کرکٹر رہے ہیں بلکہ اس لیے بھی کیوں کہ انہیں خود یہ تشبیہات استعمال کرنا پسند ہے۔

چنانچہ اس کو دیکھتے ہوئے یہ سوال لازمی اٹھتا ہے: یہ جمہوری مرحلہ حقیقت میں فکسڈ میچ تو نہیں تھا؟ اس کے علاوہ، ہمارے امپائر کتنے جانبدار ہیں؟ کیا میاں نواز شریف کلین بولڈ ہوئے یا پھر کیچ آؤٹ؟ یا پھر یہ ایل بی ڈبلیو کا کچھ کم واضح معاملہ تھا؟ اور سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ کیا نتائج کے اعلان کے بعد پچ پر حملہ تو نہیں کر دیا جائے گا؟

لیکن کم از کم ایک جگہ ایسی ہے جہاں تشبیہات پوری نہیں اترتیں۔ وہ یہ کہ کرکٹ میں ٹیم کے ارکان کی میچ سے عین قبل ٹیم بدلنے کی کوئی مثال موجود نہیں۔ مسلم لیگ (ن) سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) میں ہر شمولیت کو وکٹ گرنا قرار دیا گیا۔ مگر کیا یہ واقعی کرکٹ ہے؟

نہیں جناب، یہ سیاست ہے۔ اور پاکستانی سیاست میں پارٹی وفاداری شاید ہی کبھی ممتاز کرنے والی خصوصیت رہی ہو۔ اپنی قسمت کو چڑھتے سورج کے ساتھ منسلک کر دینا ہمیشہ ان معاملات میں ہوتا رہا ہے جہاں ذاتی مفاد واحد نظریہ ہوتا ہے۔

اس تناظر میں الزام مکمل طور پر صرف خواہشمند امیدواروں پر نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ بڑی حد تک اس کی ذمہ دار وہ شخصیات بھی ہیں جو اس وقت ذرا بھی حیران و پریشان نہیں ہوتے جب بااثر مقامی لوگ پارٹی میں داخل ہوتے ہوئے وفاداری کا وعدہ اور مخصوص حلقوں میں آسان فتح کی پیشکش کرتے ہیں۔

پڑھیے: پولنگ کے دن اصل مسئلہ کہاں پیش آیا؟

پاکستان میں چنانچہ ہمیشہ یہ رہا ہے اور کچھ حد تک یہ پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی پہلی حکومت کے خاتمے کی وجہ بھی ہے۔ یہ تاریخی کہانی تقریباً 48 سال قبل قوم کے پہلے عام انتخابات سے شروع ہوئی تھی۔

میں 1970ء کے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے کافی چھوٹا تھا مگر مجھے ملک کے قیام کے 23 سال بعد جمہوریت کے تجربے کو لے کر عوام میں موجود جوش و جذبہ یاد ہے۔ عوامی جوش و جذبہ دیدنی تھا اور نتائج نے ایک درجن سال طویل فوجی آمریت کے بعد زبردست تبدیلی کے خواب دکھائے۔ مجھے اجازت دی گئی تھی کہ میں رات جاگ کر پی ٹی وی پر نتائج کی آمد دیکھتا رہوں جو ساری رات چلتے رہے، اور انتخابی اعلانات کے بیچ میں مقامی اور غیر ملکی تفریحی پروگرامز بھی جاری رہے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کی جانب سے مشرقی پاکستان میں تقریباً کلین سوئیپ سندھ اور پنجاب میں پی پی پی کی کامیابیوں سے کچھ کم حیران کن تھا۔ شیخ مجیب الرحمان کو مشرقی پاکستان سے کوئی نشست نہ ملنے کے باوجود انہیں پارلیمنٹ میں واضح اکثریت ملنے کے عوامی فیصلے کو تسلیم کرنے سے امپائر کے انکار پر خوفناک سطح پر آنسو اور قتل و غارت اور ایک نئی مملکت کی پیدائش ہوئی۔

مگر بچے کھچے پاکستان کی بھی ایک طرح سے پیدائشِ نو ہوئی جہاں پہلے جمہوری سربراہِ مملکت نے عہدہ سنبھالا، بھلے ہی وہ وہی شخص تھے جن پر جمہوریت کو عزت نہ دینے کی ذمہ داری برابر عائد ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اگر مکمل طور پر تباہ کن نہیں تھی، تب بھی وہ مزید پریشان کن غلطیوں کے لیے ذمہ دار تھے۔

مگر 1977ء تک قوم گرداب کا شکار تھی اور اس کی بڑی وجہ قوم کے دوسرے عام انتخابات میں دھاندلی کے تاثر سے پیدا ہونے والے نتائج تھے۔ وہ شورش خاص طور پر آج کے تناظر میں یاد رکھنے کی ہے، بھلے ہی اس وقت بھٹو کے مرکزی حریفوں میں پہلے سے ہی ان کے خلاف کافی معاندانہ جذبات موجود تھے۔ پریشانی کی حالت میں وزیرِ اعظم اس وقت ایک نسبتاً چھوٹی سی مذہبی لابی کے سامنے جھک گئے، اس سے بھی زیادہ برا یہ ہوا کہ انہوں نے بڑے شہروں میں امن و امان لوٹانے کے لیے مارشل لاء لگا دیا تھا۔

پڑھیے: پاکستانی عوام کے سامنے مشکل وقت موجود ہے

اس سال کے آغاز میں بھٹو سے ایک ملاقات کے دوران میرے والد (جو کہ حکومت اور اس کے مرکزی سیکولر حریفوں کے درمیان سیاسی تصفیے کی کوشش کرنے والے ایک صحافی تھے) نے کہا تھا کہ ان حالات میں یہ نہایت خوش آئند بات تھی کہ فوج اب بھی ان کی حمایت کر رہی تھی۔ بھٹو نے جوابی حملہ کیا، "آپ کو کیا لگتا ہے میں اتنے سالوں تک کیا کرتا رہا ہوں؟ خود کو بے وقوف بناتا رہا ہوں؟"

کچھ ماہ میں ہی انہیں ہٹا کر جیل میں پھینک دیا گیا۔ 2 سال بعد وہ اس دنیا میں نہیں تھے اور تب سے لے کر اب تک پاکستان جن قوتوں کے ہاتھ میں ہے، انہوں نے گرفت ڈھیلی نہیں کی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے ظالمانہ اقتدار کے خاتمے اور جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کے درمیان موجود 11 سالوں میں طاقت کے ثالثوں کی شناخت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی، بھلے ہی نواز شریف کو اقتدار میں لانے کی ابتدائی کوشش ناکام ہوگئی تھی۔

ڈوریاں ہلانے کی بات کریں تو مشرف کے جانے کے بعد سے اب تک کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے کہ آج کے دور میں آزادی اظہار پر قدغنیں مزید سخت ہو چکی ہیں۔

عمران خان نے جو حمایت سالہاسال میں اپنے لیے پیدا کی ہے، وہ قابلِ فہم ہے۔ ایک نئے چہرے کا سحر ہے، بھلے ہی وہ نوجوان نہیں رہا، اور کسی قسم کی تبدیلی کا خواب بھی ہے۔ اس میں کرپشن مخالف بیانیہ بھی شامل کر دیں، بھلے ہی اس کے ساتھ ساتھ کچھ قابلِ افسوس رجحانات بھی ہیں۔

تمام تر امکان یہ ہے کہ یہ کپتان کا اننگز کھیلنے کا آخری موقع ہے، بھلے ہی یہ کسی اتحاد کے ساتھ ہو اور اچھی ساکھ نہ رکھنے والے بہت سارے 'الیکٹیبلز' بھی ان کی ٹیم میں ہوں گے، جبکہ امپائر بھی اپنی لامحدود قوت کے ساتھ میدان میں ہوں گے۔

دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 جولائی 2018ء کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں