خدا کا شکر ہے کہ 2018 کے انتخابات تمام ہوئے، بھلے ہی ان سے جنم لینے والی تلخی اور معاندانہ جذبات کو ختم ہونے میں ایک طویل عرصہ لگے۔

کئی لوگ مقابلے میں جیتے ہیں اور ان سے کہیں زیادہ کو شکست ملی۔ حقیقی جیت تو ان بے وسیلہ اور طعنے سہنے والے شہریوں کی ہے جو جمہوریت سے مخلص رہے، ایک ایسا نظام جس کے ثمرات سے وہ کبھی مستفید نہیں ہوئے۔

انہوں نے کل ہر طرح کی مشکلات، بشمول گرم موسم اور طویل فاصلے طے کیے تاکہ بیلٹ باکس کی تکریم برقرار رکھ سکیں۔ وہ سیاسی پنڈتوں کو غلط ثابت کرنے کے لیے بھی بے تاب تھے۔

الیکشن کمیشن کے سامنے ایک بہت بڑا ٹاسک تھا۔ مگر اس کا فوجی اہلکاروں پر غیر معمولی اور غیر ضروری انحصار اس کے علاوہ ہے، اور اس کی یقین دہانیوں کے باجود فوجی اہلکار پولنگ بوتھس کے اندر تھے، مگر اس سب کے باوجود کمیشن نے پولنگ کافی منظم انداز میں جاری رکھی۔ پولنگ اسٹاف اور سیکیورٹی عملے کی تربیت مگر ناکافی تھی۔ کئی جگہوں پر پریزائیڈنگ افسران اور سیکیورٹی عملے نے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ کارڈز کے باوجود انتخابی مبصرین کو اندر نہیں جانے دیا۔

کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملے، جس میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور صوابی میں ایک سماجی کارکن کے قتل کی بے لاگ مذمت کی جانی چاہیے۔ مخالف سیاسی کارکنوں کے درمیان، اور ان کے اور پولنگ اسٹاف کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں مگر جس حد تک ہماری سیاسی جماعتیں قطبیت اور تناؤ کو بڑھا چکی ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے انتخابات کو کم و بیش پرامن اور منظم کہا جا سکتا ہے۔

پڑھیے: نئی نویلی حکومت کا ایجنڈا

پولنگ کے دورانیے میں کئی جگہ اور اکثریتی طور پر خیبر پختونخواہ سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا جا رہا تھا۔ انتخابات سے چند دن قبل الیکشن کمیشن کو شکایت کی گئی تھی کہ خیبر پختونخواہ کے چار ضلعوں میں کئی سیاسی جماعتوں نے ایک معاہدہ کیا تھا کہ وہ خواتین کو پولنگ اسٹیشن سے دور رکھیں گے۔ الیکشن 2018 بھی خواتین کے حقِ رائے دہی کی منظم نفی کا خاتمہ نہیں کر پایا۔

ہمیشہ کی طرح مقابلہ اس دفعہ بھی دولتمندوں اور موروثی حیثیت رکھنے والوں تک محدود تھا مگر مقابلے میں اس دفعہ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے کم از کم لوگوں کو یہ یاد دہانی ضرور کروائی کہ ایک جمہوری انتخاب کیسا ہونا چاہیے۔

مجھے افسوس ہے کہ میرا ووٹ اسلام آباد میں رجسٹرڈ نہیں تھا جس کی وجہ سے میں عصمت شاہجہاں یا عمار راشد کو ووٹ نہیں ڈے سکا جنہیں زیادہ تر لوگوں نے پاگل سمجھا اور کچھ نے انہیں اس لیے احمقوں کی جنت کا باشندہ سمجھا کیوں کہ وہ اسلام آباد کے عوام سے ان کے مسائل کی فہم اور ان کے لیے خدمت کا حوالہ دے کر ووٹ مانگ رہے تھے۔ وہ جیت نہیں سکے مگر انہوں نے انتخابی نظام میں موجود سب سے بڑی خامی کو آشکار کر دیا، یعنی یہ کہ محدود مالی وسائل رکھنے والوں کا اسمبلیوں میں پہنچنے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔

میری خواہش ہے کہ میرا ووٹ کراچی میں ہوتا اور میں جبران ناصر کے ساتھ ان کے انتخابی دوروں میں ان کا ساتھ دیتا اور ان کے مخالفین کی جانب سے انہیں جہنم کی آگ سے ڈرائے جانے کے وقت انہیں دیکھتا۔ حقیقت میں میں اپنے مسیحی پڑوسی جاوید سے زیادہ بدقسمت ہوں جن کا تعلق ضلع قصور کے ایک دیہات سے ہے، رہتے لاہور میں ہیں، شناختی کارڈ پر لاہور کا پتہ موجود ہے، مگر ان کا ووٹ کراچی میں رجسٹرڈ ہے۔ انہوں نے اپنا ووٹ لاہور کیوں منتقل نہیں کروایا؟ وہ دیوار سے لگے ہوئے ان کروڑوں پاکستانیوں میں سے ہیں جو ہر وقت یا روزگار میں یا روزگار کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس لیے ووٹ نہیں ڈال سکی کیوں کہ انتخابی فہرستوں میں غلطیاں موجود تھیں۔

انتخابی اصلاحات سے متعلق کئی دیگر مسائل بھی غیر حل شدہ رہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ سے متعلق انتظامات کی ضرورت سالوں پہلے محسوس کر لی گئی تھی۔ 2016-2014 کے دورانیے میں کئی بے دل اقدامات کیے گئے مگر ان سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ امید ہے کہ آنے والے سالوں میں اس مسئلے پر اس سنجیدگی سے توجہ دی جائے گی جس کا یہ مسئلہ مستحق ہے۔

پڑھیے: نئی پارلیمنٹ کیا ہمارے 'کھائے گئے سال' لوٹا سکے گی؟

اطلاعات ہیں کہ جیلوں میں قید ایک بڑی تعداد بھی ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لے سکی۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ قیدیوں کو پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا کہا گیا تھا۔ یہ ان سے بہت زیادہ کی امید تھی۔ قیدیوں کو اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا جمہوری حق دینے کے لیے زیادہ کوششیں کی جانی چاہیے تھیں۔ ووٹنگ قیدیوں کے لیے ایک ضروری تھیراپی ہے، یہ ان کے لیے پیغام ہے کہ بھلے ہی انہیں کسی جرم کی سزا دی جا رہی ہو مگر معاشرہ چاہتا ہے کہ وہ قانون کے پاسدار شہری کے طور پر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کریں۔

سوال یہ ہے کہ اب ہم یہاں سے کہاں جائیں؟

مغلظات سے بھرپور انتخابی مہم میں ریاست کو درپیش گوناگوں مسائل پر بات کرنے کی گنجائش کم ہی تھی۔ سیاسی جماعتوں کے جاری کیے گئے انتخابی منشور اصل میں وہ خواہشات کی فہرستیں تھیں جو شہریوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً اٹھائے گئے مسائل پر مبنی تھیں۔ اس میں کچھ غلط نہیں ہے اگر ان مسائل سے نمٹنے کے لیے قابلِ اعتبار حل منشور میں بتائے گئے ہیں۔ مگر ان منشوروں میں موجود خلیج بہت وسیع تھے۔ معاشی بحران، ادائیگیوں کے بڑھتے ہوئے عدم توازن، بڑھتے ہوئے داخلی اور خارجی قرضوں، توانائی بحران اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری سے نمٹنے کے لیے کوئی سنجیدہ بات موجود نہیں ہے۔ خارجہ پالیسی اور سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن سے متعلق بھی کچھ معنی خیز نہیں ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ نئی حکومت اپنی انتخابی مہم کی بیان بازی پر زیادہ عمل نہیں کر سکے گی، اور اسے شاید اسی زنگ آلود بیوروکریسی کا محتاج ہونا پڑے جو ریاست کو ہر مشکل گھڑی میں مزید مشکلات کا شکار کر چکی ہے، اور جو ایڈ ہاک ازم میں ناقابلِ واپسی حد تک ڈوبی ہوئی ہے۔ دہائیوں کی خراب گورننس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے میں کافی وقت برباد ہوگا۔

اس کے علاوہ ان انتخابات نے ریاست کو مزید دائیں جانب دھکیل دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی نامعقول انداز میں پروان چڑھائی گئی مذہبی انتہاپسند قوتوں کی خواتین اور میڈیا کو حاصل پہلے سے ہی کم آزادی کے خلاف مہم میں کمی آنے کا امکان نہیں نظر آتا۔ اقلیتوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ سول سوسائٹی کو اپنا کام آسانی سے کرنے دیا جائے گا جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو اس کے مشورے دستیاب نہیں ہوں گے۔

پاکستانی عوام کے سامنے مشکل وقت موجود ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں