مصر کی ایک عدالت نے اخوان المسلمون کے سرکردہ رہنماؤں سمیت 75 افراد کو 2013 میں قاہرہ میں دھرنے میں شریک ہونے کے جرم میں سزائے موت سنا دی۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق مصر کے سرکاری ٹی وی چینل کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون کے رہنماؤں سمیت ان تمام افراد کے مقدمات ملک کے مفتی اعظم کو بھی بھیجے گئے ہیں۔

مفتی اعظم سے رائے لینے کا مقصد جج کو فیصلے میں تبدیلی کا ایک اور موقع دینا ہوتا ہے تاہم ان سزاؤں کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے۔

حکومتی اخبار الاحرام کی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسی کیس میں شامل مزید 660 افراد کو 8 ستمبر کو سزائیں سنائی جائیں گی جن کے خلاف بھی اپیل کی جاسکتی ہے۔

خیال رہے کہ 2013 کے دھرنے میں شامل ہونے پر اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع اور فوٹو جرنلسٹ محمد ابو زید سمیت 739 افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے تھے۔

ان افراد کے خلاف اقدام قتل اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام تھا تاہم اس کیس میں محمد بدیع اور ابو زید میں سے کسی کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ 2013 میں مصر کے اس وقت کے صدر محمد مرسی کو فوج کی جانب سے حکومت سے باہر کرنے اور گرفتار کرنے کے خلاف قاہرہ میں عوامی احتجاج شدت اختیار کرگیا تھا اور طویل دھرنا دیا گیا تھا۔

اس سے قبل 14 اگست 2013 کو مصری فوج کی جانب سے اس دھرنے کو بزور طاقت منتشر کردیا تھا جس میں 600 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ مصر نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم بھی قرار دیا تھا۔

مصر کی حکومت نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے بعد ان کے خلاف بے دردی سے کارروائیاں کیں اور کئی رہنماؤں سمیت ہزاروں کارکنوں کو جیل میں ڈالا اور سزائے موت دی۔

مصر کی ایک عدالت کے جج نے 2014 میں محمد مرسی کے 529 حامیوں کو سزائے موت سنائی تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مصری حکومت کے ان اقدامات پر شدید تنقید کی گئی اور گرفتار افراد کے خلاف آزادانہ ٹرائل کو یقینی بنانے پر زور دیا۔

2013 میں دھرنے میں عوام کو نشانہ بنانے کی مذمت دنیا بھر کے انسانی حقوق کی تنظمیوں کی جانب سے کی گئی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں ان فیصلوں کو ‘مضحکہ خیز انصاف ’قرار دیتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ پرامن احتجاج کرنے والے تمام گرفتار افراد کے خلاف مقدمات کو ختم کر دیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں