جنیوا: اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے نے سعودی عرب سے خواتین سمیت تمام امن پسند سماجی کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ان قید سماجی کارکنان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کے خاتمے کے لیے مہم چلائی تھی۔

ایک اندازے کے مطابق رواں برس مئی کے وسط سے اب تک حکومت پر تنقید کرنے والے 15 کارکنان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جس میں کچھ افراد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں، جس سے ان کے خلاف مقدمات کی شفافیت مشکوک ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: ریاست کے خلاف سرگرمیوں کے شبہے میں 17 افراد گرفتار

واضح رہے کہ گرفتار ہونے والے ان افراد میں خواتین کے حقوق کی نمایاں کارکن ایڈووکیٹ حاتون الفسی بھی شامل ہیں، جنہیں جون میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ دنیا میں خواتین کی ڈرائیونگ پر آخری پابندی ختم ہونے کا جشن منانے کے لیے صحافیوں کو اپنی کار میں لے جانے کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ترجمان روینہ شمدسانی کا کہنا تھا ہم سعودی عرب کی حکومت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کے تمام کارکنان اور سماجی رضاکاروں کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے، جو پر امن طور پر سماجی کام سر انجام دے رہے تھے، جس میں کئی سالوں سے خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کے خلاف چلائی جانے والی مہم بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب میں عالم بچوں سمیت گرفتار

واضح رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نئی نسل سے تعلق رکھنے والے پہلے سعودی بادشاہ ہوں گے، جنہوں نے بڑے پیمانے پر سعودی عرب میں اصلاحات کا نفاذ کیا اور خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کا خاتمہ کیا جبکہ قدامت پسند سعودی معاشرے میں جدت کو متعارف کروانے کا منصوبہ بھی جاری ہے۔

تاہم تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کا نفاذ سعودی سیاست میں نہیں ہوتا جہاں نظامِ بادشاہت کے تحت حکمرانوں کی مخالفت پر ابھی بھی پابندی ہے۔

اس ضمن میں جنیوا نیوز کو بریفنگ دیتے ہوئے روینہ شمدسانی کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب میں حقیقی اصلاحات آرہی ہیں لیکن ان کا دائرہ کار شہری اور سیاسی حقوق تک پھیلا ہوا نہیں، سیاسی اختلاف رائے اور حکومت پر تنقید اب بھی ملک میں قابل قبول نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے مزید 4 کارکن گرفتار

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان تمام افراد نے کسی نہ کسی طرح حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی حقوق اور سماجی کارکن کیوں قید ہیں۔


یہ خبر یکم اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں