شاید خارجہ پالیسی نئی حکومت کے لیے بلند ترین ترجیح نہ ہو، اگر ایسا ہی ہے تب بھی بیرونی محاذ پر موجود چیلنجز کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ یہ حقیقت پسندی کہ خارجہ پالیسی کی ابتداء ملک کے اندر سے ہوتی ہے، ہمارے ملک کے لیے زیادہ اہم ہے جو اس وقت شدید معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام سے گزر رہا ہے۔ چنانچہ لامحالہ ہمارے لیے اپنے داخلی حالات بہتر کرنا نہایت ضروری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کو درپیش پیچیدہ چیلنجز بھی خارجہ پالیسی کی ایک غور و خوض اور سنجیدہ انتظام کاری کے متقاضی ہیں۔ تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے علاقائی زمینی سیاسی حقائق کا ہماری قومی سلامتی اور داخلی سیاسی استحکام پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ ہمارا اسٹریٹجک محلِ وقوع دیکھتے ہوئے مزید متوازن حکمتِ عملی اپنانے کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔

مزید پڑھیے: امریکی دھونس اور دھمکی کا توڑ کیا ہے؟

ویسے تو ہم وزیرِاعظم عمران خان کے داخلی محاذ پر زیادہ توجہ دینے سے اختلاف نہیں کرسکتے، مگر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ عمران خان نے کم از کم 3 ماہ کے لیے کوئی غیر ملکی دورہ نہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟ یہ دوسری جانب کی انتہا پر پہنچنے والی بات ہے۔ کچھ ایسے اہم دارالحکومت ہیں جن کا وزیرِاعظم کو دورہ کرنا چاہیے اور دوست ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنی چاہیئں۔

اب تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ آیا وزیرِاعظم ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے یا نہیں۔ یہ اجلاس نئے وزیرِاعظم کو عالمی رہنماؤں سے ملنے کا ایک زبردست موقع فراہم کرے گا اور ایسا کرنے سے وزیرِاعظم کی توجہ داخلی معاملات سے بالکل بھی نہیں ہٹے گی۔ واقعتاً ایک تجربہ کار اور کُل وقتی وزیرِ خارجہ کے ہونے سے بہت فرق پڑتا ہے مگر کچھ ایسے مسائل ہیں جنہیں اعلیٰ ترین سطح پر حل کرنا چاہیے۔

روایت کے تحت خارجہ پالیسی کے کئی اہم ترین فیصلے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے دائرہ کار میں موجود ہیں۔ یہ صرف ایک تاثر نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اس عدم موافقت کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک پاکستان کا اپنے محل و قوع کی وجہ سے قومی سلامتی کی ریاست میں تبدیل ہوجانا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اپنی مغربی سرحد پر پچھلی 4 دہائیوں میں 2 سپر پاورز کی 2 جنگوں میں صفِ اول کی ریاست رہا ہے، جس کی وجہ سے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا اب ملک کی خارجہ پالیسی کی راہ متعین کرنے میں پہلے سے کہیں زیادہ کردار ہے۔

فوجی حکومتوں کے طویل ادوار کی وجہ سے سیکیورٹی اداروں کا فیصلہ سازی کے مرحلوں میں غلبہ بھی بڑھا ہے۔ یکے بعد دیگرے سویلین حکومتوں کی نااہلی بھی اس عدم توازن کے لیے ذمہ دار ہیں۔ سیکیورٹی کے تنگ نظر عدسے سے دیکھنے کی وجہ سے ہمارے خارجہ پالیسی کے آپشن محدود ہوگئے ہیں۔ اس صورتحال کو تبدیل ہونا ہوگا۔

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی بنانا بنیادی طور پر دفترِ خارجہ اور سویلین حکومت کی ذمہ داری ہے، ظاہر ہے کہ اس میں دیگر ممالک کی طرح سیکیورٹی اداروں سے مشاورت شامل ہوگی۔ مگر یہ دیکھنا باقی ہے کہ نئی حکومت کس طرح پالیسی کی راہ متعین کرنے اور خارجہ تعلقات برتنے کا چارج سنبھالتی ہے۔

امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوریاں، افغانستان میں جاری جنگ، ہندوستان کے ساتھ تناؤ اور چین کے ساتھ تعلقات نئی حکومت کو درپیش بڑے خارجہ پالیسی مسائل میں سے ہوں گے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اس نئی حکومت کے لیے سب سے سنگین چیلنج واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کا نظم و نسق ہوگا۔ جو اتحاد 11 ستمبر کے بعد قائم ہوا تھا، وہ لگتا ہے کہ اپنی مدت تمام کرچکا ہے۔

مزید پڑھیے: چین کے ساتھ اچھے تعلقات عمران خان کا سب سے بڑا امتحان؟

دونوں ممالک کے درمیان اتھل پتھل کے شکار تعلقات اب نکتہءِ انتہا پر پہنچ گئے ہیں۔ کسی زمانے میں اسٹریٹجک اتحاد کے طور پر دیکھے جانے والے یہ تعلقات اب ایک طویل عرصے سے کچھ لو کچھ دو کی ترتیب میں بدل چکے ہیں۔ مگر واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کی وجہ سے اب یہ انتظام بھی کام نہیں کر رہا۔

اب یہ بچا کھچا لین دین کا تعلق بھی اس سال کے آغاز میں صدر ٹرمپ کی جانب سے جنوبی ایشیاء پالیسی کے اعلان اور فوجی امداد کی معطلی کے بعد سے تناؤ کا شکار ہے۔ اپنے پیشروؤں کی طرح ٹرمپ انتظامیہ اسلام آباد کے مفادات کو نظرانداز کرتے ہوئے بلا چوں چراں تعاون چاہتی ہے۔ مگر واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کا مکمل ٹوٹ جانا کوئی آپشن نہیں ہے۔

نئی پاکستانی انتظامیہ اور واشنگٹن کے درمیان یہ پہلا رابطہ ایک امتحان جیسا تھا۔ وزیرِاعظم اور امریکی وزیرِ خارجہ کے درمیان ٹیلی فون پر جو بھی باتیں ہوئیں، ان سے متعلق تنازعات کی وجہ سے حالیہ سالوں میں کسی سینئر ترین امریکی عہدیدار کی اسلام آباد آمد کے حوالے سے شکوک کے بادل گہرے ہوگئے ہیں۔ مگر کچھ عرصے پہلے تک کے اتحادی دونوں ممالک کے لیے یہ وقت آگے بڑھنے اور تعاون کے لیے مشترکہ میدان تلاش کرنے کا ہے۔

افغانستان اب بھی ایک کانٹے دار مسئلہ ہے۔ دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کی وجہ سے لگتا ہے کہ برف پگھلی ہے اور اسلام آباد اور کابل کے لیے باہمی اعتماد کی ایسی فضاء کی تیاری کے لیے نئے مواقع کھلے ہیں جن سے ہمارے تعلقات مزید مستحکم بنیاد حاصل کرسکیں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ بیانات میں کمی لاکر ایسا فائدہ مند ماحول پیدا ہوگا جس میں دونوں ممالک کو لاحق اہم مسائل پر سنجیدہ بحث ہوسکے گی۔

واقعتاً امید پرستی کے لیے ہمارے پاس کافی وجوہات ہیں مگر اس کے لیے دونوں جانب سے تناؤ کے بڑے ذرائع کو ختم کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ کوششیں درکار ہوں گی۔ باہمی عدم اعتماد اور کچھ معاندانہ اندرونی اور بیرونی عوامل کے زبردست بوجھ کی موجودگی میں ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا۔ کابل اور اسلام آباد کے درمیان ملاقاتوں کے ذریعے گفتگو آگے بڑھی ہے اور سرحد پار ٹھکانوں کے حوالے سے ایک متفقہ حکمتِ عملی کی تیاری کے لیے زیادہ ٹھوس تجاویز سامنے آئی ہیں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

نئی حکومت کے لیے ایک اور خارجہ پالیسی چیلنج یہ معلوم کرنا ہوگا کہ نئی دہلی کے ساتھ کس طرح تعلقات بحال کیے جائیں اور بیجنگ کے ساتھ کاروبار کو کس طرح برتا جائے۔ عمران خان ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں مگر ہندوستانی ہٹ دھرمی اور مسئلہ کشمیر کسی بڑی پیش رفت کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ چوں کہ اگلے سال ہندوستان میں عام انتخابات ہیں، تو ہندوستان کے معاملے پر کسی بڑی پیش رفت کی کوئی امید نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: نئے پاکستان میں پرانا مسئلہ کشمیر

اس دوران چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات ایشیاء کی ابھرتی ہوئی زمینی سیاست اور طاقتوں کے از سرِ نو استوار ہونے کی علامت ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری دونوں ممالک کے تعلقات میں اہم زمینی سیاسی تبدیلی کے وقت میں جہت کی تبدیلی لائی ہے۔ مگر جہاں یہ پاکستان میں انفراسٹرکچر اور معیشت کی وسیع تر ترقی کے وعدے لیے ہوئے ہے، وہاں اگر پاکستان چاہتا ہے کہ یہ منصوبہ پائیدار ہو اور پاکستانیوں کے لیے طویل المدتی فوائد پیدا کرے، تو پاکستان کو کئی اہم چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج چینی فرمز کے ساتھ بہتر شرائط کی منظوری ہے تاکہ ان کی سرمایہ کاری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔

ان تمام پیچیدگیوں کے پیشِ نظر نئی حکومت کو پاکستان کے قومی مفادات مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے خارجہ پالیسی کے آپشن زیادہ وسیع کرنے چاہیئں۔ جہاں اندرونی سیاسی اور معاشی استحکام بلند ترجیح پر ہے، اتنا ہی اہم خارجہ پالیسی کا چارج لینا بھی ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 اگست 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں