تنزانیہ کی وکٹوریہ جھیل میں کشتی ڈوبنے سے ہلاکتوں کی تعداد 209 تک جا پہنچی جبکہ ایک شخص کو کشتی سے زندہ نکال لیا گیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق کشتی الٹنے کے بعد شروع کی جانے والی امدادی سرگرمیوں کے دوران 2 روز گزر جانے کے بعد انجن کے قریب ایک انجینئر کو باحفاظت نکال لیا گیا۔

تنزانین برڈاکاسٹنگ کارپوریشن نے حادثے کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انجینئر نے اپنے آپ کو انجن روم میں بند کرلیا تھا، ان کی حالت ابھی ٹھیک نہیں۔

تنزانیہ کے ڈیفنس چیف ویننس مابیو نے رپورٹرز کو بتایا کہ ریسکیو اہلکار زندہ افراد کی تلاش ختم کررہے تھے تاکہ لاشوں کی شناخت کا عمل شروع کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں : تنزانیہ: جھیل میں کشتی الٹ گئی، 100 سے زائد افراد ہلاک

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق ریاستی میڈیا نے بتایا کہ اب تک رپورٹ کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق وہ کشتی، جس میں صرف 100 مسافروں کی جگہ تھی اس پر دو گنا سے زائد افراد سوار تھے۔

تنزانیہ کے صدر جون ماگوفولی نے گزشتہ روز کشتی کی انتظامیہ کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

حادثے کے عینی شاہد نے بتایا تھا کہ کشتی ایک جانب سے زیادہ جھکی ہوئی تھی جبکہ دیگر افراد نے حادثے میں کیپٹن کو مورد الزام ٹہرایا کہ اس نے اچانک سے کشتی چلادی تھی۔

ادھر اپنے خطاب میں صدر جون ماگوفولی کا کہنا تھا کہ ’یہ واضح ہے کہ کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد سوار تھے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے کئی افراد جاں بحق ہوئے، میں نے اس کشتی کی انتطامیہ کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا'۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ذمہ داران کی گرفتاری کا عمل شروع کیا جاچکا ہے۔

قومی سوگ کا اعلان

تنزانیہ کے صدر نے مذکورہ حادثے کی وجہ سے 4 روزہ قومی سوگ سمیت تمام ہلاک شدگان کی آخری رسومات کے اخراجات حکومت کی جانب سے اٹھانے کا اعلان کیا۔

سرکاری ٹی وی کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ جزیرے اوکیروی میں بوگولورا سے روانہ ہونے والی کشتی پر 200 سے زائد افراد سوار تھے جبکہ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ کشتی پر مسافروں اور سامان کی بڑی تعداد موجود تھی۔

یہ بھی پڑھیں: تنزانیہ: زلزلے سے 11 افراد ہلاک، 100 زخمی

اپنے اہلِ خانہ کی معلومات کے لیے سرکردہ دومینا ماوا کا کہنا تھا کہ ’مجھے اپنے والد اور چھوٹے بھائی سے متعلق نہیں پتہ چلا جو اس کشتی میں سوار تھے، وہ بوگولورا کی مارکیٹ سے اسکول یونیفارم اور دیگر سامان کی خریداری کے لیے آئے تھے'۔

سیباستین جان نامی استاد کا کہنا تھا کہ جھیل کنارے رہنے والے افراد کے لیے ایسے سانحات زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری پیدائش سے لے کر اب تک کئی افراد اس جھیل میں موت کا شکار ہوئے لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں؟ یہاں پیدا ہونا ہمارے اختیار میں نہیں تھا، ہمارے پاس جانے کے لیے کوئی دوسری جگہ نہیں'۔

غیر ذمہ دارانہ رویہ

تنزانیہ کی الیکٹریکل، میکینیکل اور سروسز ایجنسی، جو فیری سروسسز کی ذمہ دار بھی ہے، کا کہنا تھا کہ وہ کشتی پر سوار افراد کی تعداد سے لاعلم تھے۔

وکٹوریہ جھیل میں ڈوبنے والی کشتی پر سامان بھی لدا ہوا تھا جس میں مکئی کے بورے، کیلے اور سیمنٹ شامل تھے جب وہ یوکارا ڈوک سے 50 میٹر سے دور الٹ گئی تھی۔

حادثے کی وجوہات تاحال واضح نہیں لیکن گنجائش سے زیادہ سواریوں کو اس حادثے کا ذمہ دار ٹہرایا گیا، دوسری جانب تنزانیہ کی اپوزیشن نے حکومت کو غیر ذمہ دارانہ رویے کا مرتکب ٹہرایا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم اس فیری کی خراب حالت سے متعلق بارہا خدشات ظاہر کرچکے تھے لیکن حکومت نے کارروائی نہیں کی'۔

مزید پڑھیں : تنزانیہ: ہیروئن اسمگلنگ پر چار پاکستانی گرفتار

اپوزیشن پارٹی کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری جون منیکا کا کہنا تھا کہ ہم بار بار حکومت کی اس غیر ذمہ داری کی نشاندہی کرتے رہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ مسافروں کو سوار کیا جانا حکام کی ناکامی تھی، انہوں نے ریسکیو آپریشن میں تاخیر پر بھی تنقید کی۔

روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے علاوہ یوگنڈا اور کینیا کے صدور نے بھی اس حادثے پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ پوپ فرانسس نے ایک بیان میں کہا کہ 'اس حادثے کے لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں'۔

70 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی وکٹوریہ جھیل تقریباً آئرلینڈ کے قریب ہے، مذکورہ جھیل کو تنزانیہ کے علاوہ یوگنڈا اور کینیا استعمال کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ تنزانیہ میں مسافر کشتیوں کے ڈوب جانے کے واقعات اکثر پیش آتے ہیں جس کی وجہ مسافروں کا گنجائش سے زائد سوار کیا جانا ہے۔

1996 میں وکٹوریہ جھیل ہی میں ایک کشتی ڈوب جانے سے 800 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس سے قبل 2011 میں تنزانیہ کی ایک اور جھیل میں مسافر کشتی ڈوب جانے سے 200 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں