فلسطین نے امریکا کی جانب سے یروشلم میں سفارتخانہ کھولنے کے معاملے کو عالمی عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے امریکا کے اس اقدام کو غیرقانونی اور ویانا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا کہ فلسطین مانتا ہے کہ سفارتخانے کی متقلی سفارتی تعلقات کے حوالے سے وینا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

فلسطین نے اپنی درخواست میں اعتراض اٹھایا ہے کہ اگر امریکا نے سفارتخانہ منتقل کرنے کے لیے طے کردہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کی۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

فلسطین نے عالمی عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکا کے اس اقدام کو غیرقانونی قرار دینے کے ساتھ ساتھ انہیں حکم دے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس میں سفارتخانے کے قیام سے دستبردار ہو جائے۔

ہفتے کو فلسطینی وزیر خارجہ ریاض الملکی نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ شکایت فلسطینی ریاست کی پالیسی کے عین مطابق ہے جس کا مقصد یروشلم جیسے مقدس شہر کو اس کی منفرد روحانی، مذہبی اور ثقافتی اقدار کے مطابق محفوظ بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ اپنے حقوق کا دفاع کرتے ہیں اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہر قسم کی سیاسی اور مالی دباؤ کو مسترد کرتے ہیں۔

یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ فلسطین نے امریکا کے خلاف عالمی عدالت میں کوئی مقدمہ کیا ہے۔

نومبر 2012 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو 'غیر رکن مبصر ریاست' کا درجہ دیا تھا جس کی بدولت فلسطینی حکام عالمی عدالتوں سے رابطہ کر سکتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کیوں تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟

البتہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا کے خلاف فلسطین کے اس مقدمے کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اقوام متحدہ اسے ریاست کا درجہ دیتا ہے یا نہیں اور اقوام متحدہ کے تحت چلنے والی عالمی عدالت صرف اسی صورت میں اس مقدمے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اگر فلسطین ایک ریاست کے عالمی قانونی ضوابط پر پورا اترے۔

یاد رہے کہ 1967 میں چھ دن تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد اسرائیل نے مشرقی یروشلم کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے پر قبضہ کرتے ہوئے پورے شہر کو اپنا متحدہ دارالحکومت قرار دیا تھا۔

فلسطین عرب اکثریتی آبادی کے حامل مشرقی علاقے پر اپنا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہاں مستقبل کی فلسطینی ریاست بنے گی۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تمام ملکوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ جب تک اسرائیل اور فلسطین کے درمیان یہ تنازع حل نہیں ہوجاتا، وہ اپنے سفارتخانے وہاں منتقل کرنے سے باز رہیں۔

صہیونی ریاست کے مطالبے پر 1995 سے امریکا کا قانون تھا کہ واشنگٹن کے سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) منتقل کردیا جائے تاہم قانون کی منظوری کے بعد ہر 6 مہینے میں اس قانون پر عمل درآمد روک دی جاتی تھی۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ بیت المقدس: امریکی سفارتخانے کے افتتاح کے موقع پر حالات کشیدہ

تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال دسمبر میں مقبوضہ بیت المقدس(یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے وہاں اپنا سفارتخانہ کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

رواں سال 14مئی کو اسرائیل کے قیام کی 70ویں سالگرہ پر امریکا نے یروشلم میں اپنا سفارتخانہ کھول دیا اور اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ خصوصی طور پر اپنے شوہرجیرڈ کشنر کے ہمراہ اسرائیل پہنچی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں