انڈونیشیا کے جزیرے سولاویسی میں زلزلے کے بعد تباہ کن سونامی سے ہلاکتوں کی تعداد 1234 سے تجاوز کر گئی۔

انڈونیشیا کی حکومت کی جانب سے ہلاکتوں کے حوالے سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق جزیرہ سولاویسی میں ہلاکتوں کی تعداد 844 سے بڑھ کر 1234 ہوگئی ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر ایجنسی کے ترجمان سوٹوپو پروو نگروہو کا کہنا تھا کہ ‘آج دوپہر تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 1234 ہلاکتیں ہوگئی ہیں’۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2 لاکھ افراد کو فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے جن میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں۔

’مایوس متاثرین کھانے پینے کی اشیا لوٹنے لگے’

پولیس کا کہنا تھا کہ مایوس متاثرہ افراد دکانوں سے پانی اور کھانے پینے کی اشیا اٹھا کر لے گئے لیکن کمپیوٹر اور نقد چوری کرنے کرنے والے 35 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

نیشنل پولیس کے نائب چیف ڈونو سوکمانتو کا کہنا تھا کہ ‘پہلے اور دوسرے روز کوئی دکان نہیں کھلی تھی جبکہ عوام بھوک سے نڈھال تھے اور انہیں کھانے کی شدید ضرورت تھی’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘دو دن بعد کھانے پینے کی اشیا کی سپلائی شروع ہوئی جو صرف تقسیم کرنا تھی اور اب ہم قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنارہے ہی’۔

ڈپٹی پولیس چیف نے کہا کہ ‘اے ٹی ایم کھلے ہوئے ہیں تاہم اگر عوام چوری کرتے ہیں تو ہم پکڑ کر تفتیش کرتے ہیں’۔

برہان الدین اید میس نامی 48 سالہ متاثر شخص کا کہنا تھا کہ ‘حکومت، صدر یہاں آئے تھے لیکن جس کی ہمیں شدید ضرورت ہے وہ غذا اور پانی ہے’۔

دوسری جانب ہیوی مشینری کی عدم دستیابی اور ٹرانسپورٹ کی شدید کمی، بڑے پیمانے پر نقصان اور انڈونیشیا کی حکومت کی جانب سے بیرونی امداد لینے سے گریز کے باعث امدادی کارروائیوں میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں:انڈونیشیا میں سونامی سے ہلاکتوں کی تعداد 8 سو سے تجاوز کرگئی

اقوام متحدہ کے مطابق متاثرین صاف پانی اور کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل نہ ہونے پر بھوک اور پیاس کا شکار ہیں جبکہ ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ 28 ستمبر کو وسطی انڈونیشیا کے جزیرے سولاویسی میں آنے والے زلزلے کی شدت 7.5 ریکارڈ کی گئی اور یہ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ کئی کلو میٹر دور علاقوں میں موجود افراد نے بھی اس کے جھٹکے محسوس کیے تھے۔

زلزلے سے سب سے زیادہ شہر پالو متاثر ہوا جس کی آبادی ساڑھے 3 لاکھ کے لگ بھگ تھی، بلند عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں جبکہ کئی گھر مکمل طور پر زمین بوس ہوگئے، سونامی کے بعد بھی سمندر میں 5 فٹ بلند لہریں اٹھتی رہیں اور شہر میں داخل ہوئیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر ایجنسی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سونامی کے وقت شہر میں 61 غیر ملکی بھی موجود تھے جن میں سے جنوبی کوریا کا ایک شہری ہوٹل کے ملبنے تلے دبا ہوا ہے اور دیگر 50 بھی اسی علاقے میں ملبے کے نیچے ہیں جبکہ ملائیشیا کا ایک اور فرانس کے 2 سیاح بھی لاپتہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔

یاد رہے کہ 26 دسمبر 2004 کو دنیا میں ریکارڈ کیا گیا سب سے بڑا زلزلہ انڈونیشیا کے ساحل کے قریب آیا تھا جس سے جنم لینے والی سونامی کی خطرناک لہریں بحرہند کے ساحلی علاقوں میں رہنے والی آبادیوں کو بہا لے گئی تھیں۔

یہ سونامی کی خطرناک لہریں ملائیشيا، تھائی لينڈ، برما اور بنگلہ ديش سے ہوتی ہوئی چند گھنٹوں میں سری لنکا اور بھارت تک پہنچ گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:انڈونیشیا: زلزلہ، سونامی سے ہلاک افراد کی اجتماعی تدفین شروع

ریکٹر سکیل پر 9.1 شدت کے زلزلے اور اس کے بعد دیوہیکل لہروں کے ساحلی علاقوں سے ٹکرانے کی وجہ سے کم از کم 2 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

14 سال قبل آنے والے سونامی سے انڈونیشیا کا صوبہ آچے سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا جہاں پونے 2 لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

ارضیاتی ماہرین کے مطابق انڈونیشیا اور جاپان ایسے خطے میں واقع ہیں، جہاں زیر زمین اور زیر آب ارضیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں