ملائیشیا کے 14ویں الیکشن میں کامیابی سمیٹنے کے لیے مہاتیر محمد اور ان کی اتحادی جماعتوں نے 100 دن کا 10 نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا۔ 100 دن کا یہ 10 نکاتی ایجنڈا اگرچہ بظاہر ناممکن تھا، لیکن تھا پاپولر، لہٰذا اسی کی بنیاد پر انتخابات لڑے گئے اور عوام کو مسلسل یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ مہاتیر محمد کی قیادت میں یہ ہدف باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

یہ 10 نکاتی ایجنڈا کیا تھا، آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔

1: حکومت جنرل سیلز ٹیکس ختم کرے گی۔

2: پیٹرول کی قیمت میں توازن لائے گی اور پیٹرول پر سبسڈی دے گی۔

3: فیڈرل لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی سیٹلرز (FELDA Settlers) پر غیر ضروری قرض ختم کیے جائیں گے۔

4: گھریلو خواتین کے لیے ای پی ایف کنٹریبیوشن (Employees' Provident Fund Contribution) شروع کیا جائے گا۔

5: قومی سطح پر کم از کم اجرت کو برابر کیا جائے گا اور کم از کم اجرت کو بڑھانے کے لیے اقدامات شروع کیے جائیں گے۔

6: جن گریجویٹس کی تنخواہ 4 ہزار ملائیشین رنگٹ سے کم ہے ان کی تعلیم کی خاطر لیے گئے قرضوں کی ادائیگیوں کو فوراً التوا میں ڈالا جائے گا اور بلیک لسٹ کرنے کی پالیسی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے گا۔

7: ملکی اداروں کو نقصان پہنچانے والے تمام اسکینڈلز کی تحقیقات اور ان اداروں کے نظام میں اصلاحات لانے کے لیے شاہی کمیشنر بنائے جائیں گے۔

8: ملائیشیا ایگریمنٹ 1963ء کو اس کی اصل حالت میں لاگو کرنے کے لیے اسپیشل کیبینٹ کمیٹی بنائی جائے گی۔

9: صحت سے متعلق پالیسی کو جانچا جائے گا اور کم آمدن والے افراد کے علاج سے متعلق بہت پالیسی کو نافذ کیا جائے گا۔

10: ملائیشیا کے تمام بڑے منصوبوں کی تعمیر سے متعلق بیرون ملک دیے گئے ٹھیکوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔

عوام میں یہ 10 نکاتی ایجنڈا مقبول ہوا، مہاتیر محمد اور ان کی اتحادی جماعتیں 9 مئی 2018ء کو الیکشن جیت گئیں اور مہاتیر محمد ملائیشیا کے 7ویں اور دنیا کے ظعیف العمر وزیراعظم منتخب ہوگئے۔

الیکشن جیتنے کے بعد حکومت کے سامنے سب سے بڑا پہاڑ 100 دن کا 10 نکاتی ایجنڈا تھا۔ حکومت نے محنت شروع کی اور تمام تر کوششوں اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے 100 دن میں صرف 2 وعدے مکمل کیے، 3 وعدوں پر کام شروع کیا اور باقی 5 نکات پر سرے سے کوئی کام شروع ہی نہیں ہوا۔ حزب اختلاف، میڈیا اور عوام نے حکومت سے سوالات کرنا شروع کردیے اور عوام سے جھوٹ بولنے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا۔

مہاتیر محمد اور ان کی اتحادی جماعتوں نے 100 دن کا 10 نکاتی ایجنڈا
مہاتیر محمد اور ان کی اتحادی جماعتوں نے 100 دن کا 10 نکاتی ایجنڈا

میڈیا ہاؤسز نے مہاتیر محمد کی حکومت پر یلغار کردی۔ معروف سیاسی تجزیہ کار پروفیسر جینیری عامر نے ‘دی ریڈ سن‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ‘لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ حکومت نے انہیں دھوکہ دیا ہے‘۔ معاشیات کے ماہر Tan Sri Ramon Navaratnam نے کہا کہ ’مہاتیر کی حکومت نے الیکشن جیتنے کے لیے 100 دن کے جو وعدے کیے وہ سیاسی تھے، یہ وعدے پریکٹیکل نہیں تھے۔ ان وعدوں کو 100 دن میں مکمل کرنے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘

حزب اختلاف کی جماعت نے عوام کو اشتعال دلایا کہ جو حکومت 100 دن کے منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی وہ باقی وعدے بھی مکمل نہیں کرسکے گی۔ عوام سے یہ بھی کہا گیا کہ حکومت جھوٹی اور نااہل ہے، لہٰذا عوام حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔

دوسری طرف مہاتیر کی پارٹی نے روایتی حیلے بہانے استعمال کرنا شروع کردیے۔ حکومتی پارٹی پی ایچ کی صدر وان عزیزہ وان اسماعیل نے بیان دیا کہ، ’ہم معافی نہیں مانگیں گے۔ ہم نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ دراصل جب ہم حکومت میں نہیں تھے تو ہمارے پاس مکمل انفارمیشن نہیں تھی کہ حکومت کو درپیش مسائل کتنے بڑے ہیں‘۔ وزیرِ خزانہ Lim Guan Eng نے اعلان کیا کہ، ’ہم 10 میں سے 5 وعدوں کو التوا میں ڈال رہے ہیں کیونکہ ملک کی مالی حالت بہت خراب ہے۔ ہمیں حکومت میں آنے سے پہلے ان حالات کا علم نہیں تھا۔‘

ایک حکومتی اہلکار نے یہاں تک کہہ دیا کہ 100 دن میں ہدف مکمل کرنا امریکی روایت ہے۔ ملائیشیا کے حالات امریکا سے مختلف ہیں اس لیے 100 دن کے وعدوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔

ان حالات میں عوام میں بے چینی بڑھنے لگی۔ لوگ اضطراب کا شکار ہونے لگے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے سرگوشیاں ہونے لگیں۔ مہاتیر محمد نے معاملے کی نزاکت کو محسوس کیا اور قوم سے سچ بولنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بیان دیا کہ، ’میں مانتا ہوں کہ ہم نے آپ سے 100 دن میں 10 وعدے پورے کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن اب میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان وعدوں کی تکمیل میں 100 سے زیادہ دن لگیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ عوام ہمارے مسائل سمجھے گی اور ہم پر یقین برقرار رکھے گی۔‘

مہاتیر محمد کا یہ سچ عوام میں مقبول ہوگیا۔ Independent pollster Merdeka Centre کی آزادانہ رپورٹ کے مطابق وعدے پورے نہ ہونے کے باوجود ملائیشیا کے 2 تہائی ووٹرز نے مہاتیر محمد کی حکومت کو مثبت ریٹنگ دی ہے اور 71 فیصد نے کہا کہ وہ مہاتیر محمد کی حکومت سے مطمئن ہیں۔ مہاتیر محمد اس وقت کامیابی سے حکومت چلا رہے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ مہاتیر محمد آہستہ چل رہے ہیں لیکن صحیح راستے پر ہیں۔

مہاتیر محمد کی سچائی نے عوام میں حکومت کے لیے اعتماد بحال کیا۔ مہاتیر محمد کی اس اپروچ سے پوری دنیا کے سیاستدانوں اور رہنماؤں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ عوام کے سامنے صرف سچ رکھ دیں تو یہ بُرے سے بُرے حالات میں بھی آپ کا ساتھ دینے کے لیے کھڑے ہوجائیں گے۔ آپ عوام کے ساتھ جھوٹ مت بولیں اور اگر کوئی غلطی آپ سے سرزرد ہوجائے تو عوام کے سامنے اس کا اقرار کرلیں۔

آپ کے سچ بولنے سے عوام کو یہ یقین ضرور ہوجائے گا کہ انہوں نے جس شخص کو ملک کی حکمرانی سونپی ہے اس کی نیت ٹھیک ہے، وہ مثبت سوچ کا مالک ہے، وہ نہ تو خود عوام کو دھوکا دے گا اور نہ کسی کو دھوکا دینے کی اجازت دے گا۔

تاریخ گواہ ہے کہ جن حکمرانوں کے متعلق یہ سوچ عوام میں پیدا ہوجائے ان حکمرانوں کا نام تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھا جاتا ہے، مؤرخ انہیں ہمیشہ ایک عظیم رہنما کے طور پر یاد رکھتے ہیں اور ان کے عوام کو دنیا کی عظیم طاقت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں