چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان کے خلاف بیرون ملک اثاثوں سے متعلق ریفرنس پر کھلی عدالت میں سماعت کی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی جوڈیشل کونسل نے ریفرنس پر سماعت کی جس میں ریجنل ٹیکس افسرسرمد قریشی بھی موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے میں خواتین پائلٹس کا کوٹا 10 فیصد مختص کرنے کا حکم

ریجنل ٹیکس آفیسرسرمد قریشی جوڈیشل کونسل میں پیش ہوئے اور جسٹس فرخ عرفان کے ٹیکس گوشوارے ظاہر کیے۔

جسٹس فرخ عرفان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ ’عدالت نے جسٹس فرخ عرفان کے 2011،2012 اور 2010 کے ٹیکس ریٹرن طلب کیے تھے‘۔

جس پر وکیل استغاثہ نے موقف اختیار کیا کہ ’جسٹس فرخ عرفان کے 2010 سے آگے کے ٹیکس ریٹرن ریکارڈ پر موجود ہیں‘۔

جوڈیشل کونسل نے وکیل حامد خان کا اعتراض مسترد کردیا۔

مزیدپڑھیں: سوا ارب خسارے پر پی آئی اے کا اسلام آباد-نیویارک روٹ بند

وکیل استغاثہ نے کہا کہ ’ڈاکٹر سرمد قریشی 2001 اور 2002 کے ٹیکس ریٹرنز لائے ہیں، جسٹس فرخ عرفان نے 2003 سے 2006 تک گوشوارے داخل نہیں کیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر سرمد جسٹس فرخ کے ویلتھ ٹیکس کے ریکارڈ بھی لائے ہیں اور انہیں آف شور کمپنی پر نوٹس بھی ریجنل ٹیکس آفیسر نے جاری کیا۔

اس حوالے سے وکیل استغاثہ نے کہا کہ ’نوٹس آف شور کمپنی گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے پر جاری کیا گیا‘۔

دوران سماعت نمائندہ ایس ای سی پی نے جسٹس فرخ عرفان کی پانچ کمپنیوں کا ریکارڈ بھی پیش کیا۔

چیئرمین جوڈیشل کونسل جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ’یہ تسلیم شدہ ہے کہ جسٹس فرخ نے کمپنیاں بنائیں اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک جائیداد خریدی گئی‘۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری کا منصوبہ منظور

جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ ’بیرون ملک جائیداد خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے آیا، کیا پیسہ بیرون ملک کمایا یا پاکستان سے گیا؟‘

اس ضمن میں چیئرمین جوڈیشل کونسل نے واضح کیا کہ ’منی ٹریل کی وضاحت جسٹس فرخ عرفان خود دیں گے، انہیں بیرون ملک جائیداد خریدنے کا جواب تو دینا ہوگا‘۔

بعد ازاں جوڈیشل کونسل نے جسٹس فرخ عرفان کے وکیل کو ریکارڈ پیش کرنے کے لیے 8 جنوری تک کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں