چین نے حراستی کیمپوں میں قید 2 ہزار سے زائد قازق اقلیتی شہریوں سے ان کی چینی شہریت واپس لے کر ملک سے جانے پر آمادگی ظاہر کردی۔

برطانوی اخبار 'دی گارجین' کی رپورٹ کے مطابق چین کے پڑوسی ملک قازقستان کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’چین 2 ہزار سے زائد قازق شہریوں کو چھوڑنے پر آمادہ ہو گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: چین: ‘یوغور اقلیت کو حراستی کیمپوں میں قید رکھنا خوفناک ہے‘

خیال رہے کہ چین کے دور افتادہ مغربی صوبے سنکیانگ میں مسلم اور دیگر اقلیتوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور انہیں حراستی کیمپوں میں رکھنے پر بیجنگ کو عالمی دباؤ کا سامنا ہے۔

چین نے سنکیانگ میں اسلام کی تعلیمات اور یوغور زبان پر سخت پابندیاں عائد کردی ہیں، جس سے متعلق اس کا مؤقف ہے کہ اس سے سنکیانگ میں رہائش پذیر غریب افراد کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔

عالمی میڈیا کے مطابق سنکیانگ میں یوغور، قازق سمیت دیگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو حراستی کیمپوں میں قید رکھا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: چین: مسلم علاقے میں سیکیورٹی کے نام پر ’ڈی این اے‘ منصوبہ

واضح رہے کہ قازقستان، چین کا تجارتی شراکت دار ہے اور قازقستان کے میڈیا نے مذکورہ مسئلے کو اجاگر کرنے میں پیشہ وارانہ غفلت برتی۔

وزارت خارجہ کے پریس آفس نے قازق میڈیا رپورٹ کی تصدیق کی کہ چین نے 2 ہزار قازقوں کو چھوڑنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

تاہم اس حوالے سے یہ نہیں بتایا گیا کہ ’کن لوگوں کو چھوڑا جائے گا اور کیوں؟‘

پریس آفس کی ای میل کے مطابق چین کے حراستی کیمپ سے قازقستان آنے والے لوگ نئی شہریت کے لیے اپنے کوائف جمع کرائیں گے۔

دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے مذکورہ پیش رفت پر تبصرہ کرنے کی درخواست پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں: چین: سنکیانگ کے مسلمانوں کیلئے درجنوں ناموں پر پابندی

خیال رہے کہ چین کے صوبے سنکیانگ کے حراستی کیمپ میں قید لوگوں کے ہزاروں لواحقین نے اپنے پیاروں کی آزادی کے لیے خطوط لکھنا اور میڈیا کانفرنس میں شرکت کرنا شروع کردیا ہے، تاکہ عالمی توجہ کے نتیجے میں مثبت پیش رفت ہو سکے۔

قازق نژاد چینی باشندوں نے سنکیانگ میں انتہائی مشکلات کے پیش نظر تجارت اور بچوں کی تعلیم کے لیے چین کو خیرباد کہنا شروع کردیا ہے۔

قازق ایڈووکیسی گروپ ’آتاجرت‘ کے سربراہ سریقزن بلاش نے بتایا کہ ’انہیں حکام کی جانب سے اپنی سماجی خدمات محدود رکھنے کی دھکمیاں مل رہی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وسطیٰ ایشیا کے لیے چینی حکام انتہائی خطرناک ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں