سندھ کے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور وائرل انفکیشن کے نتیجے میں گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران 6 نوزائیدہ بچے جاں بحق ہوگئے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ مٹھی، ننگرپارکر اور چھاچھرو سمیت متخلف علاقوں سے علاج کے لیے پہنچنے والے تمام بچوں کی اموات مٹھی کے سول ہسپتال میں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: تھر میں غذائی قلت سے مزید 4 بچے جاں بحق

ہسپتال انتظامیہ کے مطابق 4 ماہ کا سکندر، 3 ماہ کے دو ہم نام بچے شکیل سمیت 3 نومولود بچے جاں بحق ہوئے۔

غذائی قلت اور وائرل انفکیشن کی وجہ سے رواں برس جاں بحق ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد 22 ہو گئی۔

دوسری جانب سندھ چائلڈ رائٹس موومنٹ کے ریجنل ڈائریکٹر ایڈووکیٹ کاشف بجیر نے مطالبہ کیا کہ ’ضلع تھر کے تمام ہیلتھ یونٹس میں بہتر طبی سہولیات فراہم کی جائیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’گاؤں کے رہائشی کنواں کا زیرہلی پانی پینے پر مجبور ہیں‘۔

مزیدپڑھیں: تھر میں غذائی قلت، مزید 6 بچے جاں بحق

دوسری جانب مٹھی سول ہسپتال نے پیتھالوجسٹ ڈاکٹر ہریش کمار کو ہسپتال کی رہائش گاہ چھوڑنے کے لیے نوٹس دے دیا۔

اس حوالے سےکاشف بجیر نےکہا کہ ’سندھ حکومت نے نجی ہسپتال میں فرائض انجام دینے والے ڈاکٹر ہریش کمار کو تھر میں مقرر کیا تھا جہاں وہ اپنی خدمات احسن طریقے سے انجام دے رہے تھے مگر مٹھی سول ہسپتال کی جانب سے نوٹیفکیشن کرنا تھری عوام سے سنگین مذاق کے مترادف ہے‘۔

بتایا گیا کہ تھری عوام نے مطالبہ کیا کہ مٹھی سول ہسپتال نوٹیفکیشن فوری معطل کرے۔

علاوہ ازیں بتایا گیا کہ نوٹیفکیشن کے اجراء سے قبل کسی اعلیٰ حکام سے رابطہ نہیں کیا گیا۔

متاثرہ بچوں کے والدین نے سرکاری ہسپتالوں میں زندگی بچانے کے لیے ضروری ادویات سمیت دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کی شکایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ’تھر کے عوام قحط سے بچنا چاہتے ہیں تو بچے کم پیدا کریں‘

والدین نے ان کی گھر کی دہلیز پر صحت کی بہتر سہولیات پہنچانے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ انہیں اپنے بچوں کے علاج کے لیے اپنے علاقے سے میلوں دور مٹھی میں جانا پڑتا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ’تھر کے ہزاروں شہری کنووں کا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جبکہ خطرناک موسمی صورت حال کے باوجود کئی میل کا سفر کرکے جانا پڑتا ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں