مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے صاحبزادے اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے حکومت کی جانب سے ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔

حمزہ شہباز نے لاہور ہائیکورٹ میں دائر آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ نومبر میں برطانیہ کے لیے سفر کرتے وقت ایئرپورٹ پر معلوم ہوا کہ نام بلیک لسٹ میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کو نام بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے سے متعلق خطوط تحریر کیے مگر جواب نہیں ملا، انہوں نے الزام لگایا کہ وزارت داخلہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) میں بعض مقدمات زیر تفتیش ہونے کی بنیاد پر نام بلیک لسٹ میں ڈالا۔

مزید پڑھیں: نیب نے حمزہ اور سلمان شہباز کو طلب کرلیا

حمزہ شہباز نے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا کہ 'نیب کی تمام انکوائریز میں باقاعدگی سے پیش ہو رہا ہوں' اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ وزارت داخلہ کو بلاجواز کسی پاکستانی کی نقل و حرکت روکنے کا اختیار نہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آئین کے تحت آزادانہ نقل و حرکت بنیادی حق ہے۔

حمزہ شہبازنے عدالت عالیہ سے استدعا کی کہ وہ وزارت داخلہ کو نام بلیک لسٹ سے نکالنے کا حکم دے۔

خیال رہے کہ حمزہ شہباز نے اپنی درخواست میں وزارت داخلہ، پاسپورٹ، امیگریشن حکام اور نیب کو فریق بنایا ہے۔

یاد رہے کہ 17 نومبر 2018 کو نیب نے حمزہ شہباز اور ان کے بھائی سلمان شہباز کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں درج کرنے کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست ارسال کردی تھی، واضح رہے کہ دونوں بھائیوں کو رمضان شوگر مل کیس اور صاف پانی کمپنی کیس کے معاملے میں تحقیقات کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی، دوحا جانے سے روک دیا

بعد ازاں 11 دسمبر 2018 کو ایف آئی اے نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو قطر ایئر لائن کی پرواز کے ذریعے دوحا جانے سے روک دیا تھا۔

اس حوالے سے ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہونے کی وجہ سے انہیں پرواز میں روانہ ہونے سے روکا گیا، حکام نے بتایا تھا کہ نیب نے حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی تھی جس پر وزارت داخلہ نے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں