تاریخ میں دوسری بار ایچ آئی وی ایڈز کا مریض وائرس سے کلیئر قرار

05 مارچ 2019
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے مریض کو اس وائرس سے کلیئر قرار دیا گیا — شٹر اسٹاک فوٹو
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے مریض کو اس وائرس سے کلیئر قرار دیا گیا — شٹر اسٹاک فوٹو

ایچ آئی وی ایڈز کو ناقابل علاج مرض قرار دیا جاتا ہے مگر اب اس کے شکار افراد کے لیے نئی امید اس وقت سامنے آئی جب برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک مریض کو بون میرو ٹرانسپلانٹ کے بعد اس وائرس سے کلیئر قرار دے دیا گیا۔

اس مریض جس کا نام بتایا نہیں گیا، کا بون میرو اسٹیم سیلز ٹرانسپلانٹ 3 سال قبل ہوا تھا اور اس کے لیے ایسے ڈونر کی خدمات حاصل کی گئیں جس میں ایسی جینیاتی تبدیلی ہوچکی تھی جو ایچ آئی وی انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔

اس مریض کو ڈیڑھ سال تک ایچ آئی وی کو کنٹرول کرنے والی ادویات سے دور رکھا گیا اور ٹیسٹوں سے ثابت ہوا کہ اب اس شخص میں ایچ آئی وی انفیکشن کے آثار باقی نہیں رہے۔

ڈاکٹروں نے بتایا کہ اب کوئی وائرس موجود نہیں اور ہم کچھ بھی تلاش نہیں کرسکے۔

ماہرین کے مطابق یہ کیس اس بات کا ثبوت ہے کہ سائنسدان ایک دن دنیا سے ایڈز کا خاتمہ کرنے کے قابل ہوجائیں گے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایڈز کا علاج دریافت کرلیا گیا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہ مریض عملی طور پر صحت یاب ہوچکا ہے مگر ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ وہ اس موذی مرض سے مکمل چھٹکارا پاچکا ہے۔

اس مریض کو لندن پیشنٹ کہا گیا ہے اور اس سے قبل محض ایک امریکی شخص کو ہی 2007 میں جرمنی میں اسی طرح کے علاج کے بعد ایچ آئی وی سے کلیئر قرار دیا گیا تھا۔

ٹموتھی براﺅن نامی وہ شخص اب امریکا میں مقیم ہے اور طبی ماہرین کے مطابق اب بھی ایچ آئی وی فری ہے۔

دنیا بھر میں 3 کروڑ 70 لاکھ کے قریب افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں اور 1980 کی دہائی سے اب تک ایڈز کے نتیجے میں ساڑھے 3 کروڑ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

برطانوی مریض 2003 میں ایچ آئی وی کا شکار ہوا تھا اور 2012 میں اس میں بلڈ کینسر کی ایک قسم کی تشخیص بھی ہوئی تھی جس کے بعد سے اس کا علاج جاری تھا۔

ڈاکٹروں نے بتایا کہ بون میرو اسٹیم سیلز ٹرانسپلانٹ ٹھیک ہوگیا تھا مگر اس کے کچھ سائیڈ ایفیکٹس بھی ہیں جو ڈونر کے خلیات مریض کے خلیات پر حملہ آور ہونے کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں۔

بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کا طریقہ کار مستقبل میں تمام مریضوں کو اس مرض سے نجات دلانے کا ذریعہ بنے گا۔

ابھی یہ طریقہ کار کافی مہنگا، پیچیدہ اور خطرناک سمجھا جاتا ہے کیونکہ ڈونر کی تلاش آسان نہیں ہوتی۔

تبصرے (0) بند ہیں