جسٹس باقر پر حملے کے دو ملزمان میڈیا کے سامنے پیش
کراچی : پاکستان کے معاشی حب اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سندھ ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس مقبول باقر پر حملے میں ملوث دو ملزمان کو پولیس نے میڈیا کے سامنے پیش کردیا۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے یہ اعتراف کیا ہے کہ جسٹس باقر پر بم حملے کی منصوبہ بندی بشیر لغاری کے گھر پر کی گئی تھی۔
ملزمان نے بتایا ہے کہ مقبول باقر پر حملے کے لیے نارتھ کراچی میں 4-کے کی چورنگی سے موٹر سائیکل چھینی گئی تھی اوربم حملے کی منصوبہ بندی کے وقت ابوبکر، یاسر عرف موسیٰ، بشیر لغاری، ساجد اور آصف چھوٹو بھی موجود تھے۔
ملزمان نے کہا کہ بشیر لغاری نے کیمیکل اور آئل ملایا پھر بارود بھرا، ان چیزوں کو پیٹرول کی ٹنکی میں بال بیئرنگ اور نٹ بولٹ کے ساتھ بھر دیا۔ چنانچہ موٹر سائیکل چلانے کے قابل نہ رہی، اس لیے موٹر سائیکل کو رکشے میں رکھ کر جائے وقوعہ پر پہنچایا گیا۔
ملزم ابوبکر نے بتایا کہ یاسر اور وہ رکشے میں موٹر سائیکل کے ساتھ پہنچے، جبکہ ساجد ایس ایم جی گن لے کر وہاں پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی جسٹس مقبول باقر کا قافلہ وہاں پہنچا، تو ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبا کر دھماکہ کیا گیا۔
میڈیا کے سامنے بیان دیتے ہوئے ملزمان کا کہنا تھا کہ ایڈووکیٹ کوثر ثقلین اور ان کے دو بیٹوں کو بھی اس حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
ڈی آئی جی ساؤتھ ڈاکٹر امیر شیخ نے بتایا کہ قاری بشیر لغاری کی گرفتاری کے لیے کیے گئے آپریشن کے دوران انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، چنانچہ پولیس کی جانب سے جوابی فائرنگ کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ کراچی پولیس نے دو روز قبل جسٹس مقبول باقر پر حملے کے ماسٹر مائنڈ بشیر لغاری کو زخمی حالت میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا تھا۔
پولیس نے بتایا تھا کہ مبینہ ملزم کا تعلق کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی کے "چھوٹو گروپ" سے تھا اور یہ تنظیم مخلف فرقہ ورانہ حملوں میں بھی ملوث ہے جبکہ بشیر لغاری مزید حملوں کی منصوبہ بندی بھی کررہا تھا۔
ڈی آئی جی ضلع جنوبی ڈاکٹر امیر شیخ نے بتایا ”حراست میں لیا جانے والا ملزم منگل کو رات گئے سرجانی ٹاؤن میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران ہاتھ لگا، یہ جسٹس باقر پر بم حملے کا اہم ملزم تھا، جو سنگین تصادم کے دوران شدید زخمی ہوگیا تھا۔“ انہوں نے کہا کہ فائرنگ کا تبادلہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا، جس میں ایک پولیس اہلکار بھی گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اس قدر شدید مزاحمت کی توقع نہیں تھی۔
یاد رہے کہ پچھلے مہینے جون کی 26 تاریخ کو ایک طاقتور بم دھماکے سے جسٹس باقر کے قافلے کو اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ برنس روڈ کے مصروف علاقے سے گزر رہا تھا۔ اس بم دھماکے سے رینجرز اور پولیس اہلکاروں سمیت 9 افراد ہلاک، جبکہ جسٹس مقبول باقر سمیت 18 افراد زخمی ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق اس بم کو پارک کی گئی موٹرسائیکل میں نصب کیا گیا تھا اور ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے اس علاقے میں دھماکہ کیا گیا جہاں ٹریفک کا بے انتہا رش ہوتا ہے اور یہ علاقہ شہر کا ہائی سیکیورٹی زون بھی ہے، یہاں سے چند گز کے فاصلے پر سندھ ہائی کورٹ کی عمارت ہے، اور قریب ہی سندھ اسمبلی، سندھ سیکریٹیریٹ اور صوبائی حکومت کے صدر دفاتر واقع ہیں۔
ابتدائی طور پر اس واقعہ کی ذمہ داری طالبان کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔
دوسری جانب بشیر لغاری کے بیٹے محمد احمد لغاری نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے والد کو بے گناہ قتل کیا گیا ہے۔
جناح اسپتال کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بشیر لغاری کے بیٹے کا کہنا تھا کہ اس کے والد بے گناہ تھے، وہ سماجی فلاح کے کام کرتے تھے، جس کی ان کو سزا دی گئی۔
کل بروز جمعرات 18 جولائی کی اشاعت میں ڈان اخبار کے اسٹاف رپورٹر نے لکھا تھا کہ محمد احمد کے مطابق ”لگ بھگ بیس پولیس موبائل وین سرجانی سیکٹر 7-C میں واقع ہمارے گھر پہنچی تھیں۔“ انہوں نے الزام لگایا کہ ان کے والد کو گھر سے باہر کھینچ کر ان کے پیٹ میں گولی ماری، ایک پولیس اہلکار نے ان کے والد سے پستول چھین کر اس سے فائر کرکے ایک پولیس کے سپاہی کو زخمی کردیا، تاکہ اس واقعہ کو پولیس کے ساتھ تصادم دکھایا جاسکے۔











لائیو ٹی وی