لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ وہ 2 حلقوں سے انتخاب لڑیں گے۔ اس فیصلے نے جہاں ان کے حامیوں کو حیران کیا وہیں کمیونسٹوں کو جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔ کیریلا کے جنگلاتی اور ماحولیاتی طور پر نازک حلقہ انتخاب وایاناڈ میں ان کے حریف اتحاد لیفٹ فرنٹ ہیں اور ووٹرز زیادہ تر مسلمان ہیں۔

دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس فیصلے کو خوف کی ایک علامت کے طور پر بیان کیا ہے کیونکہ اب راہول اترپردیش میں امیٹھی کے علاوہ دُور دراز واقع ریاست کیریلا سے بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔

کہیں اس فیصلے کے سبب راہول نے خود کو مشکل صورتحال میں تو نہیں ڈال دیا ہے؟ اس حوالے سے کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ اتحادوں کی تشکیل کے اہم سوال پر انہیں درست تجویز نہیں دی گئی ہے۔ اگر وہ اپنی بہتر جبلتوں کے مطابق قدم اٹھاتے، تو وہ وزیرِاعظم مودی کے متبادل ایک ناقابل تسخیر سیکولر اور جمہوری ہیرو بن کر ابھرتے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہونا تھا۔

یہ تو صاف ظاہر ہے کہ وہ گومگو کی صورتحال سے دوچار ہیں اور خود کو بے حس یا پھر لاچار سا پیش کرتے ہوئے حزب اختلاف کے لیے راہیں مزید تنگ کرنے کا خطرہ مول لے لیا ہے جبکہ ان کا بظاہر یہ رویہ ایک طاقتور اتحاد کے قیام کے لیے بدتر ثابت ہوگا۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کس طرح ان کی جانب سے اپنائی گئی راہ غلط ہے اور موجودہ حالات میں حزب اختلاف کو کون سے مسائل کا سامنا ہے۔

1989ء میں جب راجیو گاندھی حزبِ اختلاف کی بینچ پر بیٹھے تھے تو اس وقت کانگریس کے پاس 197 نشستیں تھیں اور ووٹ کا 40 فیصد حصہ حاصل تھا، یعنی آج مودی کو حاصل 31 فیصد سے نمایاں طور پر زیادہ تعداد، یہ بات الگ ہے کہ مودی کے پاس نشستوں کی تعداد زیادہ ہے۔

راجیو گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھانے کی دعوت دی گئی مگر انہوں نے یہ دعوت مسترد کردی۔ یہ ایک اخلاقی سبق تھا کیونکہ انہوں نے اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل نہیں کی تھی، مگر اس کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ اس سے پہلے وجود میں آنے والی لوک سبھا میں حاصل 404 نشستوں کے مقابلے میں انہوں نے کافی کم نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ یہ بھی خیال رہے کہ 1984ء کے انتخابات میں راجیو گاندھی نے 49 فیصد ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی، انتخابات میں اتنی شرح کے ساتھ کامیابی کبھی نہرو بھی حاصل نہیں کرسکے تھے۔

وی پی سنگھ کی جنتا دل 18 فیصد ووٹ اور 143 نشستوں کے ساتھ کافی فرق کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی۔ وی پی سنگھ دائیں بازو کے ہندوؤں اور کمیونسٹوں کی مدد سے وزیرِاعظم بنے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے 1984ء میں حاصل ہونے والی 2 نشستوں کے مقابلے میں 1989ء کے انتخابات میں 85 نشستیں حاصل کیں۔ تاہم ان کے ووٹ کی شرح 12 فیصد رہی۔

2019ء کے انتخابات میں بی جے پی کو زیادہ سے زیادہ 190 نشستوں اور کم سے کم بھی 140 نشستوں پر کامیابی کے امکان ظاہر کیے جارہے ہیں۔ مذکورہ نشستوں کی امکانی تعداد راجیو گاندھی کو 1989ء میں حاصل ہونے والی 197 سے کافی کم ہے کہ جس کے ساتھ راجیو گاندھی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا موقع اپنے ہاتھ سے جانے دیا۔

ابھی تو ابتدائی دن ہیں اور زیادہ حقیقت پسندانہ اندازے 11 اپریل کو 545 نشستوں میں سے 91 نشستوں پر ہونے والے پہلے انتخابی مرحلے کے بعد ہی لگائے جاسکیں گے۔ موجودہ وقت میں یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ کانگریس شاید بی جے پی سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی۔ مگر بھارت میں ایسی بی جے پی مخالف علاقائی جماعتیں موجود ہیں جو (کانگریس کے ساتھ مل کر) ایک مضبوط متبادل سامنے لاسکتی ہیں۔

من موہن سنگھ کی 2 حکومتیں نشستوں کی بہت ہی کم تعداد کے ساتھ تشکیل دی گئی تھیں۔ انہوں نے 2004ء میں بی جے پی کی 138 نشستوں کے مقابلے میں 145 نشستیں ٓحاصل کی تھیں اور 2009ء میں بی جے پی کی 116 کے مقابلے میں 206 نشستیں حاصل کی تھیں۔ مگر ان کے پاس اتحادی تھے۔ یہاں ایک بات قابلِ غور یہ ہے کہ من موہن سنگھ نے 2008ء میں ممبئی پر ہونے والے دہشتگرد حملے کے بعد پاکستان کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس کے باوجود جب دوسری بار میدان میں اترے تب ان کی نشستوں اور ووٹ کی شرح میں اضافہ میں ہوا۔

یہ حقیقت مودی پر سوار اس جنگی جنون کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ اگرچہ اس جنگی جنون کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر تو پیش کیا جاتا ہے مگر اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ پہنچتا نظر نہیں آتا۔

راہول گاندھی کی نظریں کہاں ہیں؟ وزیرِاعظم مودی نے 2014ء میں اتحادیوں کے بغیر 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اب محض 272 نشستیں ہی انہیں اکثریت بخش دیں گی۔ اتحادیوں کے ساتھ ان کی پارٹی کے غیر متاثر کن ووٹ کی شرح 35 فیصد اور نشستوں کی تعداد 336 تک جا پہنچی تھی۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بار مقابلے میں مودی کو فیصلہ کن شکست دینے کے لیے اب بھی 65 فیصد ایسے ووٹرز موجود ہیں جن میں تحرک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

مگر ایک مشکل ہے۔ 2009ء اور 2014ء کے درمیان کانگریس کے ووٹرز میں 9 فیصد تک کمی واقع ہوئی اور 20 فیصد سے بھی کم ووٹوں کی شرح کے ساتھ کم ترین شرح حاصل کی۔ کانگریس محض 44 نشستوں پر کامیاب ہوپائی۔ یہ نشستیں اتنی کم ہیں کہ ان کی مدد سے لوک سبھا میں باضابطہ طور پر اپنا قائد حزبِ اختلاف بٹھانا بھی ممکن نہیں ہوپاتا کیونکہ اس کے لیے ایک پارٹی کو موجودہ گنتی کے حساب سے 55 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔

راہول گاندھی کو حاصل ووٹوں کی تعداد ابھی تو کم ہے، لیکن یہ معتدل رفتار کے ساتھ بڑھ رہی ہے، لیکن اس کے باوجود انہیں دیگر 45 فیصد بی جے پی مخالف یا غیر بی جے پی ووٹرز کو اپنی صف میں کھڑا کرنے کے لیے اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کانگریس ایک ناقابل تسخیر اتحاد کو وجود میں لانے کے لیے ہر ایک اس سیاسی جماعت کے پاس سرِ خم کیے جاتی، ایسا کرنے سے ریاستی ظلم و ستم کی اٹھتی لہر کا رخ موڑنے میں مدد مل سکتی تھی۔ راہول کی خالہ اور اندرا گاندھی کی قطع تعلق پھوپھی زاد بہن نین تارا سہگل کچھ دن پہلے ایک میٹنگ میں بی جے پی کے خلاف اکٹھا ہونے کی التجا کر رہی تھیں، انہوں نے بھارت کے موجودہ حالات کے لیے ’فاشزم‘ کا لفظ استعمال کیا۔

سابق سول سرونٹس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی میزبانی میں ہونے والی میٹنگ کے دوران 92 سالہ چابک اور واضح گفتار کی حامل نظر آنے والی نین تارا سہگل نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے ادبی خدمات پر دیے جانے والے سرکاری اعزاز کو لوٹا کر مودی کے خلاف زبردست سویلین احتجاجی سلسلے کا آغاز کیا۔

راہول گاندھی بھی موجودہ سیاسی ماحول کو فاشزم کا نام دیتے ہیں۔ صرف کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) نے اپنے منشور میں اس لفظ کو استعمال کرنے سے گریز کیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ پریشانی ہو کہ کہیں انہیں یہ وضاحت نہ دینی پڑجائے کہ انہوں نے 1977ء (میں جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کے وقت) اور 1989ء (میں بی جے پی کے حمایت یافتہ وی پی سنگھ کی حمایت کرتے وقت) فاشسٹوں سے ہاتھ کیوں ملایا۔

12 مارچ کو مودی کی آبائی ریاست گجرات میں معنقد ہونے والے کانگریس کے ایک اجلاس کے بعد راہول گاندھی نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے کُل حزب اختلاف اتحاد کی امیدیں بڑھائیں، ٹوئیٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ، ’گاندھی جی کے تاریخی ڈنڈی مارچ کی سالگرہ کے موقعے پر کانگریس نے احمد آباد میں اپنی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں آر ایس ایس / بی جے پی کے فاشزم، نفرت اور تفریقیت کے نظریے کو شکست دینے کا عزم کیا ہے۔ اس کام میں کوئی قربانی عظیم ترین نہیں، نہ کوئی ایک کوشش حقیر ترین ہے۔ یہ جنگ جیت لی جائے گی۔‘

پیش بینی تو شاندار تھی، مگر کہاں ہے وہ قربانی جس کا وعدہ کیا گیا؟ کانگریس نے 2014ء میں 465 امیدواروں کی کثیر تعداد میدان میں اتاری اور کم ترین ووٹ حاصل کیے۔ کیا اتحادیوں کو موقع فراہم کرنے کے لیے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے امیدواروں کی تعداد 250 تک نہیں گھٹائی جاسکتی؟ قربانیوں کو تو ایک طرف رکھیے، کانگریس نے تو مایاوتی اور ممتا بینرجی جیسے میچ ونرز کو بھی خفا کردیا ہے۔ راہول گاندھی نے اروند کیجریوال کو اہمیت ہی نہیں دی ہے، اور اب لیفٹ فرنٹ پر سامنے سے وار کیا ہے۔ کیا راہول گاندھی واقعی جیتنا بھی چاہتے ہیں؟

یاد رہے کہ دوسرا موقع شاید پھر نہ ملے۔


یہ مضمون 2 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں