’پاناما پیپرز کے بعد 22 ممالک نے ایک ارب ڈالر سے زائد ٹیکس و جرمانہ وصول کیا‘

اپ ڈیٹ 04 اپريل 2019
سب سے زیادہ رقم برطانیہ نے وصول کی، آئی سی آئی جے — فائل فوٹو: اے پی
سب سے زیادہ رقم برطانیہ نے وصول کی، آئی سی آئی جے — فائل فوٹو: اے پی

آف شور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد سے اب تک 22 ممالک کی حکومتوں نے اس اسکینڈل میں نامزد سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات سمیت متعدد افراد سے ٹیکس اور جرمانے کی مد میں مجموعی طور پر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر وصول کرلیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ برطانیہ نے اسکینڈل کے بعد 25 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، فرانس نے 13 کروڑ 60 لاکھ ڈالر، آسٹریلیا نے 9 کروڑ 30 لاکھ ڈالر ٹیکس و جرمانے کی مد میں وصول کیے۔

پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والے جرمن اخبار نے اپنی ایک رپورٹ نے بتایا کہ جرمنی نے ٹیکس و جرمانے کی مد میں اب تک 18 کروڑ 30 لاکھ ڈالر وصول کر لیے ہیں۔

آئی سی آئی جے کا اپنی ویب سائٹ پر کہنا تھا کہ جبکہ لوگوں کے ان چھپے ہوئے اثاثہ جات کے خلاف کارروائی حکومت کے لیے فائدہ دے رہی ہے وہیں پاناما پیپرز کا لوگوں کے رویے پر اثر انداز ہونے کا تاثر بھی عوام میں ابھر رہا ہے۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز لیکس منظر عام پر آنے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کے ٹیکسیشن ادارے منظم انداز میں ہونے والی اس ٹیکس چوری کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے متحرک ہوگئے تھے۔

دنیا کے 100 سے زائد میڈیا اداروں نے اس تحقیقات میں حصہ لیا جس میں 140 ٹیکس نادہندہ گان سیاست دان، فٹبال اسٹارز اور عرب پتی شخصیات شامل تھیں۔

دنیا میں تہلکہ مچانے والے پاناما پیپرز ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل تھے جن میں دنیا کی 2 لاکھ 14 ہزار 4 سو 88 کمپنیوں کا ریکارڈ موجود تھا۔

مزید پڑھیں: 'پاناما پیپرز لیکس میں 444 پاکستانیوں کے نام شامل'

ان دستاویزات کو بنانے کا سلسلہ 1970 کی دہائی پاناما کی لا فرم موساک فونیسکا نے شروع کیا تھا تاہم ان دستاویزات کو نامعلوم ذرائع نے 2015 میں لیک کردیا تھا۔

یہ دستاویزات پاناما سے جاری ہوئیں تھیں جس کی وجہ سے انہیں 'پاناما لیکس' کا نام دیا گیا، تاہم پاناما حکومت نے ان دستاویزات سے ان کے ملک کا نام جوڑنے پر اعتراض اٹھایا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ اس کی وجہ سے حکومت اور ملک کی ساکھ خراب ہورہی ہے۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز میں آف شور کمپنیاں رکھنے والے پاکستانیوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کا نام بھی سامنے آیا تھا۔

وزیراعظم نواز شریف کے خلاف اثاثے چھپانے کے الزام میں سپریم کورٹ میں ان کی نااہل قرار دینے کے لیے درخواست دائر کی گئی جس پر عدالتِ عظمیٰ نے 28 جولائی 2017 کو فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کو پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس میں11 ارب ڈالر کی موجودگی کا یقین

سپریم کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو (نیب) کو نواز شریف، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز، کیپٹن (ر) محمد صفدر اور اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ریفرنس دائر ہونے کے بعد حسن نواز، حسین نواز اور اسحٰق ڈار ملک سے باہر چلے گئے جبکہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا۔

بعدِ ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے فیصلے کو معطل کردیا تھا۔

گزشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنا دی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں