اب کیلوریز کو کیا گننا؟

اپ ڈیٹ 23 اپريل 2019
لکڑی کی سیخوں میں پروئی ہوئی سرمئی مچھلی پر زیتون کا تیل اور لہسن لگایا جاتا ہے، جسے برف سے بھرے کول باکس میں ڈالا جاتا ہے
لکڑی کی سیخوں میں پروئی ہوئی سرمئی مچھلی پر زیتون کا تیل اور لہسن لگایا جاتا ہے، جسے برف سے بھرے کول باکس میں ڈالا جاتا ہے

یہ کوئی تقریباً 20 سال پرانی بات ہے جب میں اپنی ہر چھٹی باقاعدگی کے ساتھ کراچی کے فرینچ بیچ پر گزارا کرتا تھا۔ میں نے ایک دوست سے ایک ہٹ کرائے پر لیا ہوا تھا، جہاں سے بڑے ہی خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے تھے۔ ہر ہفتے کی صبح میں ساحل پر لے جانے کے لیے ضروری سامان باندھ لیتا۔ پھر اگلے دن اکثر دوست وہاں عشائیے یا ظہرانے کے لیے وہاں آیا کرتے۔

لکڑی کی سیخوں میں پروئی ہوئی سرمئی مچھلی پر زیتون کا تیل اور لہسن لگایا جاتا ہے، جسے برف سے بھرے کول باکس میں ڈالا جاتا ہے اور اس کے ساتھ آلو کا سلاد میں رکھا جاتا ہے۔ راستے سے میں ڈبل روٹی، دیسی انڈے، بار بی کیو کے لیے کوئلے اور چند پانی کی بوتلیں خرید لیتا تھا۔

مزید پڑھیے: پاکستان عرف پلاسٹکستان

اس ہٹ میں ایک مناسب سائز کا کچن اور ایک بیڈ روم تھا، لہٰذا یہ رہنے کے لیے کافی آرام دہ جگہ تھی۔ ایک بار ہٹ پر سارا سامان اپنی اپنی جگہ پر رکھنے اور تھوڑا آرام کرلینے کے بعد میں سمندر کا رخ کرتا اور جب دیکھتا کہ لہریں پُرسکون ہوچکی ہیں تو لہروں کے اندر خود کو سمادیتا تھا، اس کے بعد واپس آکر مشروب ساتھ لے کر بیٹھتا اور لہروں کو تکتا رہتا۔ دوپہر کا سادہ سا کھانا کھانے کے بعد اونگھ لینے کی باری ہوتی کیونکہ لہروں کی موجیں اپنے اندر خواب آور اثر رکھتیں۔

جب اندھیرا ہوتا تو قریبی گاؤں کی ایک ٹیم آتی اور بار بی کیو میں مدد کرتی۔ جب تک کھانا تیار ہورہا ہوتا تو اس دوران ہم اس ساحل پر باقاعدگی کے ساتھ آنے والوں کی غیبت کیا کرتے۔ فرینچ بیچ کو جو بات منفرد بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے مالک گاؤں والے ہیں جو یہاں آنے والوں کا بھرپور طریقے سے تحفظ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آنے والی لڑکیاں اور خواتین اوباش افراد کے ہاتھوں پریشان ہوئے بغیر نہایا کرتیں۔ بغیر مبالغہ آرائی کے بات کی جائے تو میں نے یہاں سیکڑوں چھٹی کے دن گزارے، وہ بھی بغیر کسی خطرے کے۔

اتوار کو برنچ میں دیسی آملیٹ، فرینچ ڈبل روٹی کے ساتھ کافی شامل ہوتی۔ دوپہر کے بعد جب لوگوں کا ہجوم آنے کا وقت ہوتا تو میں تیز آواز میں موسیقی اور بچوں کے چیخنے چلانے کے شور سے بچنے کے لیے اپنا سامان باندھنا شروع کردیتا۔ لیکن اگر کبھی دوپہر کے کھانے کے لیے دوستوں کے آنے کا پروگرام ہوتا تو میں اپنی یہ خواہش ان کے کانوں تک پہنچا دیتا کہ مجھے کیکڑے چاہئیں، اور اکثر و بیشتر میری یہ خواہش پوری بھی ہوجاتی۔

بس پھر کیکڑوں کو ابالا جاتا اور اس کے بعد انہیں کڑاہی میں چلی ساس کے ساتھ ہلکے تیل میں فرائی کیا جاتا تھا۔ سمندر کے نظاروں کے ساتھ کیکڑے کا گوشت کھانے کا تجربہ اب بھی کئی دوست یاد کرتے ہیں۔

یہ تمام یادیں اس وقت تازہ ہوگئیں جب میں چند گھنٹوں کے لیے فرینچ بیچ لوٹا تھا۔ وہاں موجود میرے بیٹے کے ہٹ کو اس کے زین نامی دوست نے کچھ وقت کے لیے لیا ہوا تھا اور یہ اس کی سخاوت ہے کہ اس نے مجھ سمیت میرے چند دوستوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا۔ میں نے اپنے پرانے ماہی گیر دوست فتح کو بلوایا اور وہ اپنے ساتھ چند کیکڑے اور تلی ہوئی مچھلی لے کر آیا۔ وہ اس مچھلی کو ’سیلمن‘ پکار رہا تھا جو ہمارے پانیوں میں ہوتی ہی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ گھسر مچھلی کی ہی کوئی قسم ہے۔

چونکہ بیماری کے باعث میں کھانے کی رغبت کھو بیٹھا تھا اس لیے گزشتہ ان چند ماہ کے دوران کھانا پکانے کے فن سے ناآشنا رہا۔ میں نے بہت ہی کم موقعوں پر کھانا پکایا ہے اور بہت ہی کم کھایا ہے۔ اب چونکہ میری کھانے کے لیے رغبت لوٹ آئی ہے تو اس کا واحد فائدہ یہ ہوا ہے کہ میں کیلوریز گنے بغیر کھانا کھا سکتا ہوں۔

لاہور جانا ہوا تو جیسے میرے اندر ضرورت سے زیادہ کھانے پینے کا شوق ایک بار پھر زندہ ہوگیا۔ میرا ایک دوست مجھے انارکلی لے گیا جہاں ہم نے ناشتے میں نلی اور مغز کے ساتھ بہت ساری نہاری منگوائی جس کے ساتھ دیسی آٹے سے بنے خستہ نان کا آرڈر دیا۔

طاہر جہانگیر نے ہمیں رس بھری بھیڑ کے گوشت کی ران پیش کی جس میں سے گوشت ہڈی سے علیحدہ ہو کر لٹک رہا تھا۔ جبکہ شیخوپورہ کے قریب واقع میاں اعجاز الحسن کے فارم جانے پر صلہ یہ ملا کہ ہمیں پوری طرح سے گلی ہوئی مرغی کا سالن اور مٹن کڑاہی کھانے کو ملی۔

مزید پڑھیے: ورلڈ کپ اسکواڈ، آغاز تو بسم اللہ انجام خدا جانے

جن 5 پاؤنڈز کا وزن میں نے گھٹایا تھا وہ تھوڑے ہی وقت میں واپس بڑھا لیا تھا، اس لیے میں نے سوچا کہ اب اس حد سے زیادہ کھانے کے شوق پر تھوڑی نظر رکھی جائے۔ تاہم انور مقصود کے گھر پر رات کے کھانے نے منہ پانی پانی کردیا تھا۔ ان کی اہلیہ عمرانہ کھانا پکانے کی خداداد صلاحیت رکھتی ہیں، انہوں نے انور مقصود کی والدہ پاشی سے کئی کھانے پکانا سیکھے ہیں، ان کی والدہ کے ہاتھوں سے بنی دال کی تو کیا ہی بات ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ جلد ہی مجھے وہاں کھانے کو ملے گی۔

میرے جسمانی مدافعاتی نظام کی حالت کچھ ٹھیک نہیں اس لیے کسی بھی قسم کے انفیکشن کا شکار بننے کے ڈر سے باہر کھانا کھانے سے گریز کر رہا ہوں۔ مگر جیسے ہی میری طبعیت پوری طرح ٹھیک ہوجائے گی تو میں ایک بار پھر ہمارے اسٹریٹ فوڈ کے کھانوں کو کھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔


یہ مضمون 7 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار کے سنڈے میگزین ای او ایس میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں