حیدرآباد میں ایچ آئی وی کے 140 مثبت کیسز حکومتی توجہ حاصل کرنے میں ناکام

ابتدائی اسکریننگ میں 128 مبینہ کیسز کو دیکھا گیا تھا — فائل فوٹو: رائٹرز
ابتدائی اسکریننگ میں 128 مبینہ کیسز کو دیکھا گیا تھا — فائل فوٹو: رائٹرز

حیدرآباد: صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے علاقے ہٹری میں پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر اِنیشی ایٹو (پی پی ایچ آئی) کی جانب سے کی گئی شہریوں کے خون کی اسکریننگ کے دوران بڑی تعداد میں ایچ آئی وی کیسز مثبت آنے کی تصدیق ہوئی تاہم ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی حکام نے اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 140 افراد میں سے 73 افراد کے کیسز رواں سال جنوری سے مارچ کے دوران سامنے آئے۔

پی پی ایچ آئی میں موجود ذرائع کے مطابق متاثرہ علاقے حیدرآباد (دیہی) تعلقہ کے ماسو بھرگڑی اور ہٹری کی یونین کونسل میں واقع ہیں، اسکرینگ کے دوران جن گاؤں میں یہ کیسز سامنے آئے وہ نیشنل ہائے کے قریب ہیں اور متاثرہ افراد کی عمریں ایک ماہ سے 61 سال ہیں جو بشیتر مرد ہیں جبکہ کچھ خواتین بھی اس جان لیوا بیماری کا شکار ہوئی ہیں۔

مزید پڑھیں: رتوڈیرو کے 13بچوں کے ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آنے کا انکشاف

ذرائع کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی کیسز کی تعداد 140 سے کہیں زیادہ ہے اور پی پی ایچ آئی کے پاس موجود ان اعداد و شمار میں سے وقتاً فوقتاً سندھ کی صحت انتظامیہ کو مطلع کیا جاتا رہا ہے۔

پی پی ایچ آئی کے ڈیٹا کے مطابق ان گاؤں میں گل شیر بروہی، عمر پالاری، ظہیر برچ، چھلگری ماری، ٹنڈو سعید خان، گوٹھ سوومر مرجات، گوٹھ میوہ حجانو، گوٹھ مٹھو حجانو، اخند فضل صدیقی، ونکی واسی اور دیگر شامل ہیں۔

مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ برس اپریل میں ہونے والی ابتدائی اسکریننگ میں 128 مبینہ کیسز کو دیکھا گیا، جس میں سے 30 میں ایچ آئی وی کے مثبت نتائج سامنے آئے‘۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ اس اسکریننگ کا آغاز اس وقت کیا گیا جب سعودی عرب سے آئے ڈاکٹر رضوان مری نے علاقے میں 2 مبینہ کیسز دیکھے اور متعلقہ انتظامیہ کو رپورٹ کیا، اپریل سے دسمبر 2018 تک ایچ آئی وی کے کیسز کی تعداد 58 تک پہنچ گئی اور بعد میں اسکریننگ اور لیبارٹری ٹیسٹ کے دوران اس کی تصدیق بھی ہوئی۔

اس بارے میں ذرائع کا کہنا تھا کہ ’بعد ازاں (جنوری سے مارچ 2019) رواں سال کے پہلے 3 ماہ میں تصدیق شدہ کیسز کی تعداد بڑھی اور یہ اب 140 تک پہنچ چکی ہے‘۔

دوسری جانب ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تمام اعداد و شمار سندھ کے صحت حکام سمیت سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ساتھ بھی شیئر کیے گئے لیکن شاید حکام نے ان اعداد و شمار کو سنجیدہ نہیں لے رہے جبکہ اس ریکارڈ میں مریضوں کے نام ان کے گاؤں کے ساتھ شامل کیے گئے تھے۔

مذکورہ ذرائع نے بتایا کہ مبینہ طور پر مرد و خواتین سیکس ورکرز سمیت خواجہ سرا، منشیات فروش اور ٹرک ڈرائیورز آبادی کے لیے ایچ آئی وی کا سب سے بڑا خطرہ سمجھے جاتے جبکہ مزید کیسز کا امکان بھی ابھی ختم نہیں ہوا۔

پی پی ایچ آئی ذرائع کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران تقریباً 200 کیسز پائے گئے تھے جبکہ ریکارڈ کے مطابق کچھ ایچ آئی وی کیسز پیدائشی بچوں میں بھی سامنے آئے تھے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ وائرس مریضوں سے بچوں میں منتقل ہوا، اس کے علاوہ ’کچھ کیسز میں مریضوں کا انتقال بھی ہوا‘۔

علاوہ ازیں ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ 24 اپریل سے سندھ کا ضلع لاڑکانہ اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنا جب وہاں بڑی تعداد میں ایچ آئی وی پوزیٹو کے کیسز سامنے آئے، محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 24 اپریل سے اسکرینگ کے بعد 74 بچے اور 19 بڑوں سمیت کل 93 کیسز میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی جبکہ تقریباً 2 ہزار 7 سو 96 افراد کی اسکریننگ کی گئی۔

بلوچستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ

ادھر سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کا انکشاف ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاڑکانہ میں ایڈز پھیلانے کا الزام، سرکاری ڈاکٹر گرفتار

ایج کنٹرول پروگرام کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر بلوچستان افضل زرخون نے بتایا تھا کہ صوبے بھر میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد تقریباً 5 ہزار ہونے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایج کنٹرول پروگرام نے اب تک ایک ہزا ایک سو 33 ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کو رجسٹرڈ کیا، جن میں سے 824 مریضوں کا تعلق کوئٹہ اور 309 بلوچستان کے علاقے تربت سے ہیں۔

پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور تربت میں ایچ آئی وی ایڈز کیسز میں اضافے کے پیچھے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ صحت کی مناسب دیکھ بھال کے بغیر مختلف ممالک کا دورہ کر رہے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہونے کے بعد 54 افراد کو دبئی سے تربت ڈی پورٹ کیا گیا جبکہ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان مریضوں کے علاج کے لیے بلوچستان حکومت نے 2 سینٹرز قائم کیے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں