Dawnnews Television Logo

صحافت سے دم توڑتی مزاحمت دیکھ کر ڈر لگتا ہے

راستے بھر سوچتا رہا کہ میرے لڑکپن میں جنرل ضیا کا مارشل لا نافذ ہوا اور میری بیٹی کے بچپن میں بھی ایمرجنسی نافذ ہوگئی۔
اپ ڈیٹ 04 مئ 2019 09:18am

مجھے ڈر لگتا ہے، بچپن سے، اندھیرے سے، سیاہ سائے سے، بچپن کی کہانیوں کے خوفناک کرداروں سے۔

یاد ہے جب شام کے سائے ڈھلتے تو میرے آبائی گھر لکھپت بھون میں چارپائیاں ڈل جاتیں اور نانی کہانی سناتیں۔

جب ہمارے شہر لاڑکانہ پر مصیبت آتی تو ہزاروں برس قدیم موہن جو دڑو کے کھنڈرات سے بھوت پریت اس کے گرد حفاظتی حصار کھینچ لیتے۔

بچپن میں کہانیاں سننا، پڑھنا یہ مشغلہ غالباً میرے فارسی بان نانا، جنہیں ہم بابو جی پکارتے تھے، ان سے ملا۔

الف لیلیٰ، ہزار داستان، طلسم ہوشربا، یوں سمجھ لیجیے قصہ گوئی یا کہانی بیان کرنے کا چسکا ایسا لگا کہ آج بھی اپنے آپ کو قصہ گو ہی سمجھتا ہوں۔

لڑکپن میں محلے کی سرحد پار کرکے، مرچو بدمعاش اور اس کے دوستوں کا خوف، ماں کے ساتھ قبرستان میں باپ کی قبر پر جانا اور قبرستان کے درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ کا خوف۔

اندھیرے، خوف اور کالے سائے۔

بھٹو کی پھانسی، بکتر بند گاڑیاں، بوٹوں کی چاپ، کرفیو، اندھیری راتوں میں چھاپے، سیکڑوں نوجوانوں کی گمشدگیاں۔

اب میرے گھر کے آنگن میں افسانوی کہانیوں کے بجائے تلخ حقیقت پر مبنی کہانیاں بیان ہوتیں ہیں۔

یوں سمجھ لیں کہ پاکستان کے داغدار سیاسی تھیٹر پر بھٹو خاندان کا سانحہ، آمریت کا جبر، نوعمری میں ایک تماش بین اور نوجوانی میں جمہوریت کی جدوجہد میں اسٹریٹ تھیٹر کی کہانیاں لکھنے والے کا کردار ادا کیا۔

مجھ جیسے قصہ گو جسے بچپن میں اندھیرے کے خوف اور وسوسوں نے گھیرا ہوا تھا، جب صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تو اسے مزاحمتی جدوجہد کی آماجگاہ پایا۔ شاید زندگی بھر کے لیے پناہ گاہ۔ 28 برس کا سفر۔

کراچی کی خونریز گلیوں سے قبائلی علاقوں اور افغانستان کی پہاڑیوں تک، پھر لندن سے یروشلم تک تنازعات، جنگ و جدل، زندگی اور موت کو قریب سے دیکھنے کا سفر۔

صحافت کا آغاز ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لگ بھگ 2 برس بعد دی نیوز اخبار سے ہوا۔

دن رات دی نیوز یا نیوز لائن میگزین کے دفاتر میں گزرے۔ ان وقتوں میں نیوز روم اور رپورٹرز روم ہی ہم جیسوں کے لیے تجربہ گاہ ہوا کرتے تھے۔

یہیں صحافی سیکھتے، سنورتے اور بگڑتے تھے۔

کراچی شہر پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مسلح جتھوں اور اندرونِ سندھ طاقتور وڈیروں کی دہشت ہوا کرتی تھی۔

اخبارات اور جریدوں کو نذرِ آتش کرنا، عدم برداشت کی انتہا تھی۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا پوسٹر
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا پوسٹر

ہمارے سینئرز اور اساتذہ ضیا دور کی سنسرشپ سے گزرے تھے۔ وہ بین السطور اور بلاواسطہ تحریروں سے مزاحمت پر یقین کرتے تھے۔

جمہوریت کی بحالی کے بعد ہم نوجوان صحافی اس وقت کی نئی نسل، مافیاؤں اور طاقتوروں کو براہِ راست اپنی تحریروں سے بے نقاب کرنے اور للکارنے پر یقین رکھتے تھے۔

آج بھی یاد ہے ایم کیو ایم کے عروج کا وقت جب میں نے ایم کیو ایم کی تقسیم اور آپس کی لڑائیوں پر کہانیاں لکھیں تو ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم طارق (جو بعد میں قتل کردیے گئے) نے براہِ راست دھمکی دی، میرے دل میں نرم گوشہ نہیں۔

12 جون 1992ء، کو جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو ہمارے نیوز روم اور رپورٹرز روم میں بحث شروع ہوگئی کہ کیا بی بی سی اور وائس آف امریکا کے مراسلوں سے خبریں بنائی جائیں؟ یہ دہشت کی انتہا تھی۔

اس وقت میں ایک جونیئر رپورٹر تھا اور ایڈیٹر کی اجازت سے شہر کا رخ کیا۔ دفاتر بند، رہنما اور کارکنان روپوش اور الطاف حسین خودساختہ جلاوطن ہوچکے تھے، جبکہ سڑکوں پر فوجی گاڑیوں کا راج تھا۔

اگلے روز کا اخبار میری کہانیوں سے بھرا ہوا تھا مگر میرے نام کے بغیر، کیونکہ ایڈیٹر کے نزدیک میری حفاظت زیادہ اہم تھی۔

لیکن جب اسی شہر میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو دہشت گردی کے الزام میں جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا گیا اور ہاتھ پاؤں گولیوں سے چھلنی لاشیں ملنا شروع ہوئیں تو ہم صحافیوں نے ان جعلی پولیس مقابلوں کی کہانیاں بھی لکھیں۔

پہلے صرف ایم کیو ایم کی دھمکیاں تھیں، اب پولیس اور نامعلوم دھمکیاں بھی ملنا شروع ہوگئیں، لیکن ہمارے دفاتر اور ہمارا پریس کلب ہمارے لیے محفوظ پناہ گاہ بنی رہیں۔

ان دنوں 2 ایڈیٹرز سے بے حد متاثر ہوا۔ پہلے عمران اسلم جنہوں نے تخلیق سے بھرپور میری تحریروں کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا، جس میں قصہ گوئی یا لٹریری آمیزش جھلکتی تھی۔ پھر ان تحریروں کو اخبار میں نمایاں جگہ دی جو آج بھی میری شناخت ہیں۔

دوسری نیوز لائن کی ایڈیٹر رضیہ بھٹی تھیں، جن سے میں نے بے باکی، بہادری اور مزاحمتی صحافت سیکھی۔ یہ ہمارا چھوٹا سا دفتر تھا، جہاں نہ کوئی محافظ تھے اور نہ ہی طاقتور لوگ، لیکن اس کے باوجود ریاستی اداروں سے ٹکر لینے کا حوصلہ اور مثالی کردار، میری زندگی کا اثاثہ رہا۔

پھر غیر ملکی ادارے اے ایف پی سے منسلک ہوگیا، جس کے سبب پاکستان کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ افغانستان گیا، وہ بھی اس وقت جب وہاں طالبان کا دور تھا۔

اے ایف پی
اے ایف پی

لسانی، فرقہ وارانہ فسادات اور فوجی آپریشنز کے بعد صحافت پر مذہبی انتہا پسندی کے جبر کے بادل منڈلاتے میں نے طالبان دور میں دیکھے۔

قندھار کے ہندو چوک کے گرد و نواح میں بسنے والے ہندو اور سکھوں کے لباس پر پیلے رنگ کی پٹیاں دیکھیں تو ماتھا ٹھنکا۔ پھر ہٹلر، یہودی، یلو اسٹار اور طالبان کے اس نسلی امتیاز کی کہانی لکھی تو طوفان برپا ہوگیا۔ اتنی شدید دھمکیاں ملیں کہ رات کے اندھیرے میں ہی افغانستان چھوڑنا پڑا۔

جلد ہی افغان طالبان کی انتہا پسندی پاکستان کی سرزمین پر جڑ پکڑنے لگی۔ ہزاروں مدارس میں انتہا پسندوں کے جو بیج بوئے گئے تھے اب وہ تناور پودوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔

نائن الیون سے قبل بی بی سی سے منسلک ہوا اور لندن سے یروشلم کا سفر کیا، جہاں فلسطینی تنازعے کی کوریج کی۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجیوں کا ظلم اور جبر، ہر فلسطینی گھر کی مظلومیت کی کہانی تھی۔ راملہ میں فلسطینی نوجوانوں کو غلیل سے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بناتے دیکھا۔ جب اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ دیکھی تو بچپن میں پی ٹی وی پر دیکھی تصاویر جیسے میرے سامنے زندہ ہوگئیں۔

میں نے صحافتی سنسرشپ سری لنکا میں تامل تنازع کی کوریج میں بھی دیکھی۔

صحافت، مزاحمت اور خطرات کا ایک ساتھ سفر جاری رہا۔

نائن الیون کے بعد کئی برس تک میرا بسیرا قبائلی علاقوں اور افغانستان میں رہا۔ القاعدہ طالبان کے جتھوں کا افغانستان سے قبائلی علاقوں میں پڑاؤ اور پاکستان کی صحافت پر غیر ملکی میڈیا اور ڈالرز کی یلغار بھی دیکھی۔

انہی دنوں کی بات ہے، میں نے وانا کے بازار میں بڑے بڑے بالوں والے کلاشنکوف اور راکٹوں سے لیس مقامی طالبان کے جتھوں کا گشت اور القاعدہ کے رہنماؤں کو قبائلیوں کے حجروں میں پناہ لیتے دیکھا۔ میں نے جب مقامی طالبان، افغان طالبان اور القاعدہ کے گٹھ جوڑ کا انکشاف کیا تو ایک بار پھر خوب شور مچا۔

القاعدہ اور نامعلوم دھمکیاں زور پکڑنے لگیں۔ یہیں کمانڈر نیک محمد سے ملاقات ہوئی جو ڈرون کا پہلا شکار بنے۔ اس ملاقات میں انہیں نے ایک جملہ کہا جو آج بھی یاد ہے۔ کہتے ہیں کہ ’یہ خنزیر کا بچہ میرے پیچھے پیچھے رہتا ہے‘۔ ان کا اشارہ آسمان میں ایک تارے جیسی شے (ڈرون) کی طرف تھا۔ قبائلی شروع میں اسے بش کی آنکھ بھی کہتے تھے۔

مجھ جیسے صحافی تو کوریج کے بعد شہروں کو لوٹ سکتے تھے، لیکن قبائلی صحافیوں کے لیے صورتحال خطرناک تھی، ان کی صحافتی صلاحیتیں کمزور اور دنیا کی بڑی کہانی ان کی سرزمین پر لکھی جارہی ہے، یعنی خطرات ہی خطرات تھے۔

ان کے لیے یہ طے کرنا مشکل تھا کہ کتنا اُگلا جائے اور کتنا نگلا جائے۔ دوسری طرف غیر ملکی میڈیا ایک ظالم دیوتا بنا ہوا تھا۔

قبائلی صحافی حیات اللہ کی تشدد زدہ لاش، صحافی سلیم شہزاد کا میرے سی ویو فلیٹ کے قریب مبارک مسجد میں جنازہ، عزیز و اقارب کی سسکیاں، مجھے اب بھی یاد ہیں۔ مجھے وہ جملے بھی یاد ہیں جو شاید انہوں نے اپنے قد سے بڑھ کر لکھنے کی کوشش کی اور جان گنوا دی۔

دوسری جانب جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کی جانب بڑھتے قدم۔

3 نومبر 2007ء میری بیٹی ریسا کی سالگرہ تھی۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ رنگ برنگے جھولے پر سوار تھی، کہ اچانک میرا فون بجا۔ فون پر خبر ملی کہ جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ٹی وی چینلز پر پابندی عائد کردی ہے۔ اُن دنوں میں جیو انگلش کا ہیڈ تھا۔ لہٰذا فوری دفتر روانہ ہوا۔ راستے بھر سوچتا رہا کہ میرے لڑکپن میں جنرل ضیا کا مارشل لا اور آمرانہ دور تھا، اور میری بیٹی کے بچپن میں بھی ایمرجنسی نافذ ہوگئی۔

ماضی، حال اور مستقبل سے متعلق بے چینی ہی بے چینی تھی۔

عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں صحافیوں نے ملک گیر احتجاج کیا۔ لاٹھی چارج ہوا، تشدد ہوا، گرفتاریاں ہوئی، اور میں نے بھی سینئر صحافیوں کے ساتھ گرفتاری پیش کی۔

رہائی کے بعد ایک بار پھر جلوس کی صورت اخبار والی گلی (جسے تحریک میں ہم نے آزادی گلی کا نام دیا تھا) میں مشعلیں جلائیں، جذباتی تقاریر کی، جدوجہد، آزادی اور صحافت کے عہد و پیما کیے اور سب ایک ڈھال کی طرح متحد ہوگئے۔ لیکن افسوس کہ آج بھی صحافیوں کو خطرات بدستور جاری ہیں۔

اے ایف پی
اے ایف پی

طالبان کی دہشت گردی اور بڑھتی دھمکیاں آج بھی یاد ہیں۔ حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے کے بعد طالبان کے ترجمان اور کمانڈر احسان اللہ احسان کی براہ راست فون کال بھی یاد ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’آپ نے ہمارے امیرِ محترم کو شہید کیوں نہیں لکھا؟‘۔ جواب دیا ’کیونکہ یہ بطورِ ایڈیٹر میری ذمہ داری تھی۔‘ سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور پھر دھمکی ملی کہ ’میں آپ کے ماتھے پر 4 گولیاں مار کر قتل کرسکتا ہوں۔‘۔

نائن الیون کے بعد امریکی صحافی ڈینئل پرل جب قتل ہوئے تو ایک مرتبہ پھر صحافیوں پر قاتلانہ حملے بڑھنے لگے۔ رپورٹرز اور نیوز روم میں کام کرنے والے صحافیوں اور ان کے رشتہ داروں کو دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں صحافی کالعدم تنظیموں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان بُرے طریقے سے پسے رہے۔

تلخ یادیں اور بھی ہیں۔ نوجوان صحافی ولی خان بابر کا بہیمانہ قتل بھی یاد ہے۔ اس کو اپنے ہاتھوں سے صحافتی قافلے میں شامل کیا اور پھر اپنے کاندھے پر اس کے جنازے کو اٹھا کر رخصت کیا۔ یہ انتہائی تکلیف دہ لمحات تھے۔ حامد میر پر قاتلانہ حملہ، رضا رومی کا ملک چھوڑ جانا، سرل المیڈا جیسے قابل صحافی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنا، جبکہ دنیا کو مطلوب دہشت گرد آزاد گھوم رہے ہوں، یہ سب تکلیف دہ تھا۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ عمل یہ کہ جب اپنے ہی ساتھی طنز کے نشتر لگارہے ہوں۔

میڈیا وار، منقسم صحافتی تنظیمیں اور پریس کلبز کا اپنے ہی ساتھیوں کے لیے غیر محفوظ ہونا نیا ہے۔ پھر معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت، ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے سنسرشپ کی پریشانی۔ اگرچہ سنسرشپ ماضی میں بھی رہی لیکن اس کے خلاف صحافیوں کی جدوجہد اور مزاحمت کی بھی تاریخ رہی۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ صحافیوں اور ایڈیٹرز نے ریڈ لائنز کا تعین کرلیا اور اپنے لیے کمفرٹ زون بنالیے۔

نہ ریڈ لائنز کراس کریں گے نہ سنسر شپ مسلط کرنے والوں سے ٹکراؤ ہوگا، گویا بدقسمتی سے سیلف سنسرشپ کا عنصر بھی سرائیت کرتا جارہا ہے۔

جب ٹکراؤ نہیں ہوگا تو مزاحمت کیسی، اور مزاحمت تو صحافت کا خاصہ ہے۔ بدقسمتی سے صحافت میں مزاحمت دم توڑتی نظر آرہی ہے۔جس کے سبب گھٹن کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ سماج میں بڑھتا عدم برداشت، انتہا پسندی کا فروغ، سیاست سے صحافت تک غدار اور محبِ وطن کا لیبل لگانا پریشان کررہا ہے۔

سچ پوچھیے تو دم گھٹتا اور سانس رکتا محسوس ہورہا ہے۔ پھر وہی کالے سائے، خوف اور پھر وہی اندھیرے۔

مجھے ڈر لگتا ہے۔


ہیڈر خاکہ: ایفا خالد