وادی نیلم کے مقامیوں کی آمدن میں اضافے کیلئے سماجی منصوبہ

اپ ڈیٹ 12 مئ 2019
آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے قانون سازی کی ہے — فائل فوٹو/ڈان
آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے قانون سازی کی ہے — فائل فوٹو/ڈان

حکومت کے ملک اور بالخصوص آزاد کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات پر سول سوسائٹی نے مقامی آبادی کی مدد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے۔

شمالی علاقوں کا دورہ کرنے والے زیادہ تر سیاح کا تعلق کراچی اور لاہور سے ہوتا ہے۔

گرافک ڈیزائنر محمد عقیل نے سوشل میڈیا پر معلومات حاصل کرنے کے بعد وادی نیلم کا دورہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں زندگی بہت تھکادینے والی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے ذہنی اور جسمانی سکون کے لیے پیسے بچاتے ہیں اور ہر 2 سے 3 سال میں ملک کے شمالی علاقوں کا دورہ کرتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم تمام معروف مقامات پر جا چکے ہیں، 12 گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد وادی نیلم کا دورہ کرنے کے بعدآپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے پیسے وصول ہوگئے ہیں، شاردہ میں مئی کے مہینے میں بھی آپ کو کہیں کہیں برف مل جاتی ہے‘۔

آزاد جموں و کشمیر کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں 10 لاکھ افراد نے وہاں کا دورہ کیا جن میں سے آدھی سے زائد تعداد نے نیلم ویلی کا دورہ کیا جب کہ عید کے بعد مزید سیاحوں کی امید کی جارہی ہے۔

سیاحوں کی بڑی تعداد کے باوجود سب سے زیادہ سیاحتی مقام، جن میں شاردہ بھی شامل ہے، میں اتنے زیادہ لوگوں کے لیے مناسب سہولیات نہیں ہیں۔

پاکستان پاورٹی ایلیوایشن فنڈ (پی پی اے ایف) کی قیادت میں متعدد غیر سرکاری تنظیم (این جی اوز) مقامی افراد کے سیاحت سے آمدن بڑھانے پر یکجا ہوئے ہیں۔

پی پی اے ایف کی نیلم عظمت کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی تجربات کی بنیاد پر ہم نے گلگلت بلتستان میں منصوبے آزمایا تھا، اب ہم نیلم ویلی میں اس پر کام کر رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ گزشتہ سال کئی افراد کو اپنی گاڑیوں میں راتیں گزارنی پڑی تھیں جس کی وجہ سے ہم یہ منصوبہ یہاں لائے‘۔

واضح رہے کہ نیلم ویلی میں محدود حد تک زراعت ہے اور غربت اور بے روزگاری کے باعث زیادہ تر افراد شہروں میں کام کرتے ہیں اور اپنی بیوی اور بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ جاتے ہیں۔

اس منصوبے کے تحت مقامی اداروں کی جانب سے 100 گھروں کو منتخب کیا گیا ہے اور انہیں اپنے گھروں کے کمروں کو جدید طرز پر تبدیل کرنے کا کہا گیا ہے جہاں مہمان سیاح قیام کرسکیں گے۔

نیلم عظمت کا کہنا تھا کہ ’یہاں دیگر ہوٹلوں کے مقابلے میں پیسے کم لیے جاتے ہیں لیکن اس سے میزبان کو فائدہ ہوگا جو زیادہ تر غریب ہیں، وہ کچھ اضافی آمدن حاصل کرسکیں گے اور آہستہ آہستہ وہ کاروباری لحاظ سے خود مختار ہوجائیں گے ورنہ یہ غریب افراد بڑھتی ہوئی سیاحت کے مقام پر بھی کم آمدن والی نوکریاں ہی کرتے رہ جائیں گے‘۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہماری چند شرائط بھی ہیں کہ مہمان صرف فیملیز ہوں گی اور کمرہ گھر کا حصہ ہوگا جبکہ اس کام کی مارکیٹنگ پی پی اے ایف کی جانب سے ایک ادارے سے کرائی جائے گی۔

ان 100 گھروں میں سے 17 میں کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ 83 میں کام جاری ہے اور اس کے بعد نیلم ویلی کے دیگر علاقوں میں بھی منصوبے کو لایا جائے گا۔

نیلم عظمت کا کہنا تھا کہ ’گھروں کو تبدیل کرنے کے حوالے سے سب سے اہم کام صفائی ہے کیونکہ سیاحوں کی سب سے بڑی تشویش صاف بستر اور واش روم ہوتی ہے۔

پی پی اے ایف کی ایک اور شراکت دار ادارہ اخوت فاؤنڈیشن ان کمروں کو تبدیل کرنے کے لیے 1 لاکھ 25 ہزار روپے کا قرض فراہم کر رہا ہے جبکہ ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن (ایچ ڈبلیو ایف) نے مقامی افراد کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے تربیت دے رہا ہے۔

ایچ ڈبلیو ایف کی کنسلٹنٹ بریگیڈیئر (ر) سمیرا رضا کا کہنا تھا کہ ’ہم خواتین کو سکھا رہے ہیں کہ کس طرح مرد سیاحوں کی جانب سے تصاویر کھینچنے یا چائے پینے کی فرمائش کو تمیز سے ٹھکرایا جاسکتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بہتر آمدن کے ساتھ یہ خواتین کھانے پکانے کے لیے لکڑیوں پر انحصار کی جگہ ایل پی جی خرید سکیں اور اس سے جنگلات کا بوجھ بھی ہلکا ہوگا‘۔

سیاحوں کی ایک نئی قسم جو سیاحت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر ڈال کر پیسے کماتی ہے، بھی سامنے آئی ہے۔

اس ہی طرح کی ایک سیاحت پر بلاگنگ کرنے والے جوڑے امتل اور فہد جو ’پتنگیر‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، بھی گرمیوں کے موسم سے قبل اس مقام کا تجربہ کرنے کے لیے نیلم ویلی پہنچے۔

امتل کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسے ہی ایک کمرے میں رکے اور وہ چھٹیوں سے بڑھ کر تھا، ہم نے گھر کے مالک اور ان کے بچوں سے باتیں کی، ان کا مقامی پکوان کھائے‘۔

آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے بھی سیاحت کے فروغ کے لیے قانون سازی کی ہے۔

آزاد جموں و کشمیر کے وزیر سیاحت مشتاق منہاس کا کہنا تھا کہ سیاحتی سرگرمیوں کے لائسنس کا اجرا آزاد جموں و کشمیر کونسل کی جانب سے کیا جاتا تھا اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کے پاس کسی بھی قسم کی رعایت دینے کا اختیار نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’اب آئینی ترمیم کے بعد رجسٹریشن اور لائسنسنگ کا اختیار آزاد جموں و کشمیر حکومت کے پاس آجیا ہے، آزاد جموں و کشمیر کے ہوٹل اور ریسٹورانٹ ایکٹ 2018، آزاد جموں و کشمیر ٹریول ایجنسیز ایکٹ 2018 اور آزاد جموں و کشمیر ٹور گائیڈز ایکٹ 2018 کا اطلاق اپریل 2019 سے ہوگیا ہے۔

آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نئے قوانین کے اطلاق کے لیے مزید اقدامات کر رہی ہے جس سے سیاحتی صنعت کی نگرانی اور اس کے فروغ میں مدد ملے گی۔


یہ رپورٹ 5 مئی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تمام تصاویر اس آرٹیکل سے لی گئی ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Rizwan May 06, 2019 04:22am
Very good initiative. They can add their rooms on many room sharing apps working in Pakistan. That’s wonderful to see. Please expend this program to other popular areas of Pakistan as well.
Leon May 06, 2019 04:48am
Bohat achia initiative hai or is ko puray northern areas main hona chahiye. Is k elawa local logon k sath mil ker safai ke initiative b honay chahiye.