میرے دادا کی ایک عرصے تک ریڈیو کشمیر سے گہری وابستگی کے دن ہمارے اہل خانہ کی یادوں کا خوشنما حصہ رہے ہیں۔ میر غلام رسول نازکی ایک مقبول شاعر اور مصنف تھے، انہوں نے اپنے کیریئر کی شروعات محض 16 برس کی عمر میں بطور ایک استاد شروع کی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی ادبی اور مستعار آواز ریڈیو سے ہی پائی تھی۔

اسی میں ان کا صحافتی کیریئر گندھا ہوا ہے، جو ان کی خاندان کے فوٹو المبوں میں چند نایاب تصاویر کی صورت میں عکس بند ہے، اس کے علاوہ 1950ء میں سری نگر میں صدر راجندر پرساد کے کشتی جلسے کے دوران ان کی کمنٹری کے لمحات بھی ان تصاویر میں قید ملتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا موقع تھا، ہندوستان کے پہلے صدر کشمیری وزیرِاعظم شیخ محمد عبداللہ کے ہمراہ سری نگر کے خوبصورت دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ کشتیوں کے جلسے میں شریک تھے۔ یہ پہلا ایسا موقع تھا جب ریڈیو کشمیر نے اپنے اسٹوڈیو سے باہر رہتے ہوئے براہِ راست نشریات چلائی تھی۔

غلام رسول نازکی 1950ء میں سری نگر میں صدر راجندر پرساد کے کشتی جلسے کے موقعے پر براہ راست کمنٹری کرتے ہوئے— نازکی فیملی آرکائیوز
غلام رسول نازکی 1950ء میں سری نگر میں صدر راجندر پرساد کے کشتی جلسے کے موقعے پر براہ راست کمنٹری کرتے ہوئے— نازکی فیملی آرکائیوز

مائیکرو فون سے لیس میرے دادا اس جلسے میں شریک ان افراد کے بیچ رہتے ہوئے رپورٹنگ کر رہے تھے جو ان کی رپورٹنگ کے سامعین بھی تھے۔ جب میں اس تصوریر کو دیکھتی ہوں تب میرے ذہن میں گھروں پر موجود ریڈیو سیٹ پر سر جوڑے ان افراد کی تصویر بننے لگتی ہے، جو ان کی کمنٹری کچھ اس طرح سن رہے ہیں جیسے وہ وہیں موجود ہوں۔ اپنے مائیکرو فون کے ساتھ وہ اس تاریخی لمحے کو ان لوگوں کے لیے حقیقت کا روپ دے رہے تھے۔

چلیے 70 برس بعد کی بات کرتے ہیں۔ میں ان کی پوتی، جو بی بی سی کے ٹی وی پروگرام سیریبین پروڈیوس اور لندن سے براہِ راست پیش کررہی ہوں۔ سیربین خود بھی اسی نام سے نشر ہونے والے معروف (اور اب بھی مقبول) ریڈیو پروگرام کی جدید صورت ہے۔ جبکہ میرا کام بی بی سی کی کہانیوں کو ہمارے ٹی وی ناظرین کے لیے حقیقت کا روپ دینا ہے۔

ہر روز سیریبین ’ریفریش‘ (ہم ہماری براہِ راست نشریات کو ایک قدم آگے لے گئے ہیں) کرنے کے لیے جیسے ہی میں اس جدید ترین ٹی وی اسٹوڈیو میں داخل ہوتی ہوں تو مجھے پروگرام کی آزمائشی نشریات کے ابتدائی دنوں کی یاد آتی ہے۔ مجھے تکتی بڑی بڑی ٹچ اسکرین کو جب میں نے چھوا تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ اپنی آزمائش کے لیے میری منتظر تھی۔ ٹچ اسکرین پر سوائپنگ، باکس کھولنے اور بند کرنے کے ہنر میں مہارت حاصل کرتے وقت میں کبھی کبھار ہمارے فیملی البم میں محفوظ اس نایاب تصویر کے دنوں کو یاد کرنے لگ جاتی ہے، جس تصویر میں میر غلام رسول نازکی ہاتھ میں مائیکرو فون تھامے وہی کچھ کر رہے ہیں جو میں کر رہی ہوں، جی ہاں کہانیاں بتانا۔

محض چند ہی سالوں میں ہمارے میڈیا کا منظرنامہ سوشل میڈیا کی فراہم کردہ معلومات تک رسائی کی وجہ سے انقلابی شکل اختیار کرچکا ہے۔ مگر اسکرین کے سامنے جب میں براہِ راست میزبانی کر رہی ہوتی ہوں تب میں اس بات سے واقف رہتی ہوں کہ ہمارا بنیادی صحافتی نصب العین متاثر نہ ہوا یعنی: مواد بلکہ قابلِ بھروسہ مواد ہی سب سے اہم بات ہے۔

ٹچ اسکرین مجھے کہانیوں کو اس انداز میں پیش کرنے کی قوت بخشتی ہے جس کا چند سالوں پہلے تک تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ اسکرین مجھے ہمارے ٹی وی ناظرین کے لیے ان کہانیوں کو بتانے میں مدد فراہم کرتی ہے جنہیں تصویری طور پر بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے بعد کچھ ایسی بھی کہانیاں ہیں جو خود کو پیش کرنے میں ٹچ اسکرین کی بہتر انداز میں مدد کرتی ہیں، خاص طور پر جس کا ذریعہ یا محور ’سوشل‘ (بی بی سی اردو میں ہم اسے سوشلستان پکارتے ہیں)۔

عالیہ نازکی پروگرام سیریبین پیش کرتے ہوئے—فوٹو: Jeff Overs/BBC
عالیہ نازکی پروگرام سیریبین پیش کرتے ہوئے—فوٹو: Jeff Overs/BBC

اسٹوڈیو میں جب آن ایئر ہوتے ہیں تب ہمارے ناظرین ان کہانیوں کی دیگر مختلف ذرائع سے بھی پیروری کرتے ہیں اور ایک سے زائد پلیٹ فارم پر ان سے تعلق میں رہتے ہیں، لہٰذا ہمیں نہ صرف ہر بدلتی صورتحال سے آگاہ رہنا ہوتا ہے بلکہ ان کہانیوں کے اس کھیل میں بھی آگے رہنا ہوتا ہے کہ جن پر وہ بھروسہ کرسکتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ صحافیوں کی جانب سے مواد کو زیادہ سے زیادہ متعلقہ اور ہم ربط بنانے کی مہم کا مطلب یہ نکلے گا کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان اور خواتین ناظرین آزاد اور بھروسہ مند خبر کے لیے آئیں گے۔ میں میزبان کے کردار کو ایک گائیڈ کے طور پر دیکھتی ہوں، ایک ایسا گائیڈ جو آپ کو خصوصی طور پر منتخب، منظم اور ماہرانہ معلومات کے ساتھ پیش کیے جانے والے مواد سے ہمکنار کرتا ہے۔

اس ٹچ اسکرین کے سامنے میرا یہ کردار اور بھی زیادہ فقط جنبش دست کا محتاج بن جاتا ہے کیونکہ میں ایک ناظر کو اپنے ساتھ سوائپ، ٹچ، باکسز کو کھولنے اور بند کرنے کی دعوت دیتی ہوں، اور تمام تر مواد کو ایک جگہ رکھنے والے اینکر کا کردار نبھاتے وقت کہانی کے مختلف پہلوؤں پر ان سے بات کر رہی ہوتی ہوں۔

یکم جولائی 1948ء کو میرے دادا نے سری نگر میں ریڈیو کشمیر پر سب سے پہلی ریڈیو اناؤنسمنٹ کی تھی۔ میں نے 2013ء میں سیریبین پیش کرنا شروع کیا۔ براہِ راست نشریات کے آغاز سے قبل تھوڑی بہت گھبراہٹ اب بھی ہوتی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ کبھی جان بھی نہیں چھوڑے گی۔

دیگر ٹی وی پیش کاروں کی ہی طرح میں خود بھی براہِ راست نشریات کے دباؤ اور ’افراتفری یا عجلت‘ سے واقف ہوں۔ جب نشریات میں تمام معاملات ٹھیک چل رہے ہوں، یا اگر کوئی ایک آدھ کمی بیشی ہوجائے تو بھی یہ بات مجھے ذہن نشین رہتی ہے کہ سب کچھ ایک بہاؤ کی طرح ہے اور اگر آپ اپنے ناظرین کے ساتھ ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوں تو پھر تقریباً ہر کمی بیشی دُور کرنا ممکن ہے۔

میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ ٹچ اسکرین کے اس زمانے میں مائیکرو فون تھامے نازکی اس جدید ساز و سامان کو دیکھتے تو کیا رائے دیتے؟


یہ مضمون 12 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں