سی پی جے کا حراست میں لیے گئے صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2019
پاکستانی میڈیا پر لگی پابندیاں صرف پاکستان کی جمہوریت کو کمزور کرنے میں کردار ادا کررہی ہیں—تصویر بشکریہ فیس بک
پاکستانی میڈیا پر لگی پابندیاں صرف پاکستان کی جمہوریت کو کمزور کرنے میں کردار ادا کررہی ہیں—تصویر بشکریہ فیس بک

صحافتی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ 22 دیگر افراد کے ہمراہ گرفتار کیے گئے صحافی گوہر وزیر کو رہا کیا جائے۔

صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نیو یارک کی بین الاقوامی تنظیم نے 28 مئی کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'منگل کو بنوں سے حراست میں لیے جانے والے خیبر نیوز کے رپورٹر گوہر وزیر نے ایک روز قبل رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ کا انٹرویو کیا تھا'۔

بیان میں کہا گیا کہ'گوہر وزیر کو محض خبر رپورٹ کرنے پر حتیٰ کہ متنازع معاملات مثلاً پشتون تحفظ موومنٹ کی رپورٹ کرنے پر حراست میں نہیں لیا جانا چاہیے تھا'۔

یہ بھی پڑھیں: صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں پاکستان کا 139واں نمبر

سی جے پی ایشیا پروگرام کوآرڈینیٹر اسٹیون بٹلر نے بیان میں کہا کہ 'پاکستانی میڈیا پر لگی پابندیاں صرف پاکستان کی جمہوریت کو کمزور کرنے میں کردار ادا کررہی ہیں'۔

سی جے پی کے مطابق حکام کو گوہر وزیر کو 'فوری اور بلا مشروط' رہا کیا جانا چاہیے۔

سی جے پی کے بیان کے مطابق 'ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیکورٹی ادارے نے پی ٹی ایم پر رپورٹ کرنے سے منع کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے جو اس کے اختیار کو چیلنج کررہی ہے'

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کے علاقے بنوں کے مختلف علاقوں سے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کم از کم 22 کارکنان کو حراست میں لے کر ہری پور جیل بھیج دیا گیا۔

بنوں کے ڈپٹی کمشنر عطاالرحمٰن نے کہا کہ مذکورہ گرفتاریاں امنِ عامہ کے قیام کے آرڈیننس (ایم پی او) کی دفعہ 3 کے تحت عمل میں آئیں، اس کے علاوہ گرفتار افراد میں پشتو ٹی وی چینل ک ایک رپورٹر خان بادشاہ عرف گوہر وزیر بھی شامل تھے۔

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے خر قمر میں پیش آنے والے واقعے کے پر پی ٹی ایم اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے کارکنان نے دھرنا دیا تھا جس کے بعد پولیس اور انتظامیہ نے رات گئے آپریشن کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیرستان: سیکیورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ سے 5 اہلکار زخمی، پاک فوج

پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں موجود چائے کے ہوٹلوں اور گھروں پر چھاپہ مار کر 22 افراد کو گرفتار کیا، ڈپٹی کمشنر کے مطابق جن افراد کو حراست میں لیا گیا وہ امن و عامہ کے لیے خطرہ تھے جنہیں 30 دن تک قید رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے ایک عہدیدار نے بتایا کہ گرفتار افراد کو ہری پور جیل بھیج دیا گیا، جن میں اے این پی کے سابق ضلعئ صدر، عبدالصمد خان بخت نیاز خان اورمتعدد طلبہ رہنما شامل ہیں۔

دوسری جانب انتظامیہ نے وانا میں ایک مظاہرے کے بعد کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے جنوبی وزیرستان کے قبائلی اضلاع میں عوامی اجتماع پر پابندی عائد کردی۔

مقامی افراد کا کہنا تھا کہ اے این پی نے وانا میں افطار سے قبل جنوبی قلعے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور سحری کے بعد اسے ختم کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملے، 2 اہلکار شہید

مظاہرے میں شامل ہونے والے افراد کی بڑی تعداد میں لوگوں نے خر قمر چیک پوسٹ پر لوگوں کی ہلاکت کے خلاف نعرے بازی کی جبکہ اس احتجاج میں پی ٹی ایم کےکارکنان بھی شریک ہوئے۔

ادھر میران شاہ سمیت قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں نافذ کیے گئے کرفیو میں جزوی طور پر نرمی کی گئی تاہم مواصلاتی رابطوں کی سہولیات معطل رہیں، خیال رہے کہ انتظامیہ نے خر قمر کے واقعے کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کیا تھا۔

اے این پی کے صوبائی جنرل سیکریٹری سردار حسین ببک نے گوہر وزیر کو حراست میں لینے کی مذمت کی جو نجی ٹی وی چینل کے ایک رپورٹر ہیں اور خبردار کیا کہ اس قسم کے اقدامات سے صورتحال مزید سنگین ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں