تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا! مقبولیت میں چاہے ٹی 20 کرکٹ آسمان کی بلندیوں کو چھو لے لیکن کرکٹ میں جو حیثیت ون ڈے ورلڈ کپ کو حاصل ہے، وہ کسی ٹورنامنٹ کی نہیں۔

44 سال کی تاریخ میں کرکٹ ورلڈ کپ میں ہم نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ 1992ء جیسے انتہائی کامیاب ٹورنامنٹ سے لے کر 2007ء میں ہر لحاظ سے ایک مایوس کن ورلڈ کپ تک، جہاں کرکٹ شائقین کو کئی یادگار لمحات میسر آئے، وہی کئی مواقع ایسے بھی رہے جن کی تلخی آج بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔

کرکٹ شائقین، چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، یہی کہتے ہیں کہ کاش کہ ورلڈ کپ میں ایسے لمحات نہ آتے۔ آئیے بات کرتے ہیں کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ کے متنازع ترین لمحات کی۔

5: گاوسکر کی گھونگھا چال

پہلا ورلڈ کپ، پہلا میچ اور پہلا تنازع۔ میزبان انگلینڈ اور بھارت نے ورلڈ کپ 1975ء کا افتتاحی مقابلہ 'کرکٹ کے گھر' یعنی لارڈز میں کھیلا۔ بھارت کو 60 اوورز میں 335 رنز کا ہدف ملا جو اپنے زمانے کے حساب سے ایک بہت بڑا اسکور تھا۔ امید تو یہی تھی کہ بھارت کے بلے باز کُھل کر کھیلیں گے لیکن بھارت کے بہترین بیٹسمین سنیل گاوسکر تک گویا آغاز سے پہلے ہی شکست تسلیم کرچکے تھے۔ گاوسکر نے 174 گیندیں کھیلیں اور صرف اور صرف 36 رنز بنائے۔

اگر اسے ون ڈے کرکٹ تاریخ کی بدترین اننگز کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ایک ایسی اننگز جس پر انفرادی طور پر گاوسکر بھی تاعمر شرمندہ رہیں گے۔

گاوسکر نے 174 گیندیں کھیلیں اور صرف اور صرف 36 رنز بنائے—اسکرین شاٹ
گاوسکر نے 174 گیندیں کھیلیں اور صرف اور صرف 36 رنز بنائے—اسکرین شاٹ

4: نہ کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے

ورلڈ کپ 1996ء کے کوارٹر فائنل میں جب بھارت نے روایتی حریف پاکستان کو شکست دی تو بھارتیوں کے خیال میں وہ ورلڈ کپ جیت چکے ہیں، اب محض رسمی کارروائی باقی ہے۔ پھر 13 مارچ 1996ء کو 252 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جو بھارت کے ساتھ ہوا، اللہ وہ دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔ 98 رنز تک بھارت کا صرف ایک کھلاڑی آؤٹ تھا لیکن جیسے ہی سچن ٹنڈولکر کی وکٹ گری، بھارت کی بیٹنگ لائن دھڑام سے نیچے آ گئی۔

جب صرف 22 رنز کے اضافے کے ساتھ بھارت کے 7 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تو تماشائیوں کا غصہ آسمان پر پہنچ گیا۔ انہوں نے سری لنکن کھلاڑیوں پر بوتلیں پھینکنا شروع کردیں اور اسٹینڈیم میں آگ لگانا شروع کردی۔ اگرچہ میچ روک کر تماشائیوں کو ’ٹھنڈا‘ کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن معاملات ہاتھوں سے باہر ہوچکے تھے۔ جب تمام کوششیں ناکارہ ہو گئیں تو میچ ریفری کلائیو لائڈ نے سری لنکا کو فاتح قرار دے دیا۔ شاید یہ ورلڈ کپ کا واحد مقابلہ ہوگا کہ جس میں کسی ٹیم کو 'بائے ڈیفالٹ' کامیاب قرار دیا گیا ہے۔

3: اندھیرے میں آسٹریلیا کا راج

ورلڈ کپ 2007ء بلاشبہ تاریخ کا ناکام ترین ورلڈ کپ ٹورنامنٹ تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی ورلڈ کپ ویسٹ انڈیز میں کروایا گیا اور شاید اس کے بعد توبہ بھی کرلی گئی ہوگی۔ اس ٹورنامنٹ کی ناکامی کے کئی پہلو تھے، جن میں سب سے نمایاں پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کا پہلے مرحلے میں باہر ہو جانا اور پاکستان کے کوچ باب وولمرکی اچانک وفات نمایاں تھے۔ یوں یہ ٹورنامنٹ شائقینِ کرکٹ کی اکثریت کی توجہ سے محروم ہو گیا۔

بہرحال، فائنل جیسے بڑے مقابلے میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی لیکن ورلڈ کپ 2007ء کے فائنل تک میں بھیانک غلطیاں ہوئیں۔ برج ٹاؤن، بارباڈوس میں ہونے والا فائنل جس میدان پر کھیلا گیا اس میں فلڈ لائٹس نہیں تھیں۔ بارش سے متاثرہ مقابلے میں آسٹریلیا نے 38 اوورز میں 281 رنز بنائے جس کے تعاقب میں سری لنکا کی پوزیشن اچھی نہیں تھی۔ 33ویں اوور میں جب کم روشنی کی وجہ سے میچ روکا گیا تو آسٹریلیا نے جشن منانا شروع کردیا کیونکہ سری لنکا ہدف سے کافی پیچھے تھا۔

آسٹریلوی کپتان اور سری لنکن کپتان امپائرز کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں—آئی سی سی
آسٹریلوی کپتان اور سری لنکن کپتان امپائرز کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں—آئی سی سی

آخری 3 اوورز مکمل اندھیرے میں کھیلے گئے—اے پی
آخری 3 اوورز مکمل اندھیرے میں کھیلے گئے—اے پی

آسٹریلیا کا کہنا ٹھیک تھا کیونکہ کم از کم 20 اوورز کا کھیل ہوچکا تھا، لیکن یہاں امپائروں سے غلطی ہوئی، جنہوں نے کہا تھا کہ میچ بارش کی وجہ سے نہیں بلکہ اندھیرے کی وجہ سے روکا گیا اور آخری 3 اوورز کل کھیلے جائیں گے۔ سری لنکا کو چونکہ 18 گیندوں پر 61 رنز کی ضرورت تھی، یعنی جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا اس لیے اس نے اگلے دن نہ آنے کا فیصلہ کیا اور یوں مکمل اندھیرے میں آخری 3 اوورز کھیلے گئے۔ تماشائیوں کو تو سرے سے گیند نظر ہی نہیں آ رہی تھی اور شاید کھیلنے والوں کو بھی۔ اس بھیانک غلطی کی وجہ سے امپائر اسٹیو بکنر اور علیم ڈار کے علاوہ تھرڈ امپائر اور میچ ریفری کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

2: سب سےبڑے میچ میں سب سے بڑی وکٹ؟

اگر اس مقابلے کو ورلڈ کپ تاریخ کا سب سے بڑا میچ قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ 30 مارچ 2011ء کو دنیا کی نظریں پاک-بھارت سیمی فائنل پر تھیں جبکہ برصغیر میں تو سڑکیں ویران ہوگئی تھیں۔ سیمی فائنل میں کامیابی تو بھارت نے حاصل کی لیکن میچ نے متنازع رُخ ضرور اختیار کیا۔

بھارتی اننگز کے 11ویں اوور میں سعید اجمل کی ایک خوبصورت گیند نے بھارت کے اہم بلے باز سچن ٹنڈولکر کو وکٹوں کے سامنے جا لیا۔ نہ صرف باؤلرز اور فیلڈرز بلکہ امپائر اور کمنٹیٹرز بھی متفق نظر آئے کہ یہ آؤٹ تھا۔ پہلے ری پلے میں بھی واضح تھا کہ یہ گیند مڈل اور لیگ اسٹمپ کے درمیان جا رہی ہے۔ لیکن سچن نے ریویو لینے کا فیصلہ کیا اور پھر جو ہوا وہ حیران کُن تھا۔ بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے مطابق یہ گیند لیگ اسٹمپ کو چھوئے بغیر نکل گئی تھی۔ امپائر کا فیصلہ واپس ہوا، سچن بچ گئے، 85 رنز کی بہترین اننگز کھیلی اور بعد میں مردِ میدان بھی قرار پائے۔

نہ صرف باؤلرز اور فیلڈرز بلکہ امپائر اور کمنٹیٹرز بھی متفق نظر آئے کہ یہ آؤٹ تھا—ٹوئٹر
نہ صرف باؤلرز اور فیلڈرز بلکہ امپائر اور کمنٹیٹرز بھی متفق نظر آئے کہ یہ آؤٹ تھا—ٹوئٹر

سعید اجمل کو آج بھی 110 فیصد یقین ہے کہ وہ آؤٹ تھا کیونکہ انہوں نے جو گیند پھینکی تھی وہ آرم بال تھی، وہ آف اسٹمپ پر پڑنے کے بعد لیگ کی طرف کیسے نکل سکتی ہے؟ بہرحال، بہت ہنگامہ کھڑا ہوا، یہاں تک کہ بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے ذمہ دار ادارے ہاک آئی انوویشنز نے باضابطہ وضاحت جاری کی اور اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن تنازع کھڑا ہوچکا تھا اور آج بھی خاص طور پر پاکستانیوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔

1: ایک گھٹیا قانون اور ہمیشہ کا صدمہ

1992ء کے ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل کو ورلڈ کپ کی تاریخ کا متنازع ترین میچ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ رنگین کٹس، سفید گیندوں کے ساتھ رات کے اوقات میں کھیلا جانے والا پہلا ورلڈ کپ آج بھی تاریخ کے کامیاب ترین کرکٹ ٹورنامنٹس میں شمار ہوتا ہے۔

پہلے سیمی فائنل میں پاکستان فیورٹ نیوزی لینڈ کو شکست دے چکا تھا اور اب فیصلہ ہونا تھا کہ 'بابائے کرکٹ' انگلستان اور پہلی بار ورلڈ کپ کھیلنے والے جنوبی افریقہ میں کون پاکستان کے ساتھ فائنل کھیلے گا؟

جنوبی افریقی کپتان میچ روکے جانے کے بعد میدان سے باہر جاتے ہوئے—Patrick Eagar
جنوبی افریقی کپتان میچ روکے جانے کے بعد میدان سے باہر جاتے ہوئے—Patrick Eagar

جنوبی افریقہ کو 13 کے بجائے محض ایک گیند پر 22 رنز کا ہدف دے دیا گیا—اسکرین شاٹ
جنوبی افریقہ کو 13 کے بجائے محض ایک گیند پر 22 رنز کا ہدف دے دیا گیا—اسکرین شاٹ

سڈنی میں ہونے والے اس میچ میں بارش نے بھیانک کردار ادا کیا اور 'بابا' کو جتوا کر 'بچے' کو باہر کردیا۔ انگلینڈ نے 45 اوورز میں 252 رنز بنائے تھے جس کے تعاقب میں جنوبی افریقہ کو آخری 13 گیندوں پر 22 رنز کی ضرورت تھی کہ ایک مرتبہ پھر بارش ہوگئی۔ کیونکہ وقت باقی نہیں بچا تھا اس لیے بارش سے متاثرہ مقابلوں کے لیے بنایا گیا ’کالا قانون‘ زد میں آیا جو بلاشبہ ایک بھیانک قانون تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوبی افریقہ کو 13 کے بجائے محض ایک گیند پر 22 رنز کا ہدف دے دیا گیا۔ انگلینڈ جیت کر فائنل میں چلا گیا، جہاں اس کے ساتھ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا یعنی شکست مقدر ٹھہری۔

اب ورلڈ کپ 2019ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے مقابلے کے ذریعے پاکستان کی مہم بھی شروع ہونے والی ہے۔ کیا اس ورلڈ کپ میں بھی ہمیں کوئی متنازع لمحہ دیکھنے کو ملے گا؟ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

تبصرے (2) بند ہیں

Syed Adil Shah May 31, 2019 01:50pm
Good blog, memories revived
Syed Adil Shah May 31, 2019 01:50pm
Good blog, memories revived.