ورلڈ کپ 2019ء کے دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلوں پر ایک نظر

کرکٹ کا 12واں عالمی کپ 46 دن تک جاری رہنے کے بعد لارڈز کے تاریخی میدان میں میزبان انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے مابین ہونے والے فائنل کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔

یہ ٹورنامنٹ زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز رہے، اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے اسے 10 ٹیموں تک محدود کردیا تھا۔ آئی سی سی کا خیال تھا کہ ان کے اس اقدام سے ورلڈ کپ کے تمام ہی میچ دلچسپ اور کانٹے دار ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔

اس لیے ورلڈ کپ میں جو اچھے میچ ہوئے ہیں، ان کی ہم نے کچھ چھانٹی کی ہے، اور ہمیں جو سب سے یادگار میچ لگے، اس کا ذکر آپ کے سامنے کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے اس ٹورنامنٹ کی ایک اور خاص بات بھی بتا دینی چاہیے کہ ٹورنامنٹ میں زیادہ تر وہ ٹیمیں کامیاب ہوئی ہیں جنہوں نے ٹاس ہارے ہیں۔

تو چلے آئیے اس ٹورنامنٹ کے دوران کھیلے جانے والے چند دلچسپ ترین اور سنسنی خیز مقابلوں کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستان بمقابلہ انگلینڈ

عالمی کپ کا چھٹا میچ ناٹنگم کے مقام پر پاکستان اور انگلینڈ کے مابین کھیلا گیا۔ اس میچ سے چند روز قبل کھیلی جانے والی ایک روزہ سیریز میں انگلینڈ کے خلاف پاکستان کو 5 میچوں کی سیریز میں 0-4 سے بدترین شکست کی ہزیمت اُٹھانی پڑی تھی۔ اگر پہلا میچ بارش سے متاثر نہیں ہوتا تو یہ 0-5 بھی ہوسکتا تھا۔

یہی نہیں بلکہ ورلڈ کپ کے اپنے پہلے ہی میچ میں پاکستان کو ویسٹ انڈیز کے خلاف یکطرفہ مقابلے کے بعد شکست ہوئی تھی۔ اس تمام تر تناظر میں انگلینڈ کے ہاتھوں پاکستان کی شکست واضح نظر آرہی تھی کیونکہ اس مقابلے سے قبل پاکستان کو مسلسل 11 ایک روزہ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور دوسری طرف انگلینڈ مسلسل جیت رہا تھا۔

پاکستان کی باؤنسرز کے خلاف کمزوری کو مدِنظر رکھتے ہوئے انگلینڈ کے کپتان مورگن نے ٹاس جیت کر پہلے پاکستان کو بلے بازی کی دعوت دی۔ لیکن حیران کن طور پر قومی ٹیم ابتدا سے ہی ایک الگ رنگ میں نظر آئی اور ٹیم نے مقررہ اوورز میں محمد حفیظ، بابر اعظم، کپتان سرفراز احمد کی نصف سینچریوں اور انگلینڈ کی ناقص فیلڈنگ کی بدولت 8 وکٹوں کے نقصان پر 348 رنز بنالیے۔

پاکستان کے اسکور کے تعاقب میں انگلینڈ کی 4 وکٹیں 118 رنز کے اسکور پر گر گئیں تھیں۔ اس موقع پر جو روٹ اور جوس بٹلر نے 130 رنز کی شراکت قائم کرکے انگلینڈ کو فتح کی راہ پر گامزن کردیا۔ میچ پر ایک مرتبہ پھر انگلینڈ کی گرفت مضبوظ ہو رہی تھی اور قومی ٹیم ایک اور شکست کی جانب جاتی دکھائی دے رہی تھی۔

لیکن خوش قسمتی سے روٹ اور بٹلر آؤٹ ہوگئے اور یوں پاکستان کے لیے مشکلات بہت حد تک کم ہوگئیں۔ اگرچہ انگلینڈ کے نچلے نمبروں پر آنے والے کھلاڑیوں نے ہدف کا تعاقب جاری رکھا مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکے اور یوں پاکستان ایک دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد 15 رن سے فتحیاب ہوگیا۔

اہم بات یہ کہ تقریباً 4 سال کے طویل عرصے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا موقع آیا تھا جب انگلینڈ اپنے ہی ملک میں ہدف کا تعاقب کرنے میں ناکام ہوا تھا۔

بنگلہ دیش بمقابلہ نیوزی لینڈ

اوول میں کھیلے گئے اس عالمی کپ کے پہلے ڈے اینڈ نائٹ مقابلے میں نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے ٹاس جیت کر بنگلہ دیش کو کھیلنے کی دعوت دی۔ بنگلہ دیش نے اپنے مقررہ اوورز میں شکیب الحسن کے 64 رنز کی بدولت 244 رنز بنائے۔

ایک موقعے پر بنگلہ دیش نے جب 30 اوورز میں 150 رنز بنا لیے تھے تب ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شاید 275 یا اس سے بھی زیادہ رنز بنالے گا لیکن وقفے وقفے سے گرنے والی وکٹوں نے ان کے اسکور کو محدود کردیا۔

بنگلہ دیش نے اپنے مقررہ اوورز میں شکیب الحسن کے 64 رنز کی بدولت 244 رنز بنائے
بنگلہ دیش نے اپنے مقررہ اوورز میں شکیب الحسن کے 64 رنز کی بدولت 244 رنز بنائے

نیوزی لینڈ کی بلے بازی کو دیکھتے ہوئے یہ ہدف آسان معلوم ہورہا تھا اور جب نیوزی لینڈ نے صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر 160 رنز بنا لیے تو شائقین کرکٹ کی توجہ اس میچ سے اس لیے ہٹ گئی کہ چلو ایک اور آسان میچ ختم ہونے والا ہے، مگر اچانک ولیمسن 40 رنز بنا کر مہدی حسن کی گیند پر اپنی وکٹ کھو بیٹھے۔

بس ولیمسن کے آؤٹ ہونے کی دیر تھی، اس کے بعد اس میچ نے ایک ڈرامائی رخ اختیار کرلیا اور بنگلہ دیش کے باؤلرز آہستہ آہستہ میچ پر حاوی ہوتے نظر آئے۔ کیونکہ نیوزی لینڈ نے صرف 78 رنز کے اضافے کے ساتھ اپنی 6 وکٹیں گنوا کر بنگلہ دیش کی جیت کی امیدیں روشن کردیں تھیں۔

238 کے اسکور پر جب نیوزی لینڈ کی 8ویں وکٹ گری تو میچ پر دونوں ٹیموں کی گرفت تقریباً برابر ہوچکی تھی، لیکن اس موقعے پر مچل سینٹنر نے اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے لوکی فرگوسن کے ساتھ مل کر جیت کے لیے درکار 8 رنز حاصل کرکے ایک دلچسپ مقابلے کے بعد اپنی ٹیم کو فتح دلوادی۔

آسٹریلیا بمقابلہ ویسٹ انڈیز

ویسٹ انڈیز نے ٹرینٹ برج کے میدان پر پاکستان کو ہرانے کے بعد آسٹریلیا کے خلاف بھی جلد ہی اپنے عزائم کا اظہار کردیا تھا۔ اس میچ میں ایک مرتبہ پھر ویسٹ انڈیز کے کپتان نے ٹاس جیت کر مخالف ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت دی اور صرف 79 رنز کے اسکور پر ان کے 5 کھلاڑیوں کو پویلین بھیج دیا۔

اس موقعے پر اسٹیو اسمتھ کی واپسی کا احساس شدت سے محسوس ہوا کیونکہ انہوں نے مشکل وقت میں وکٹ کیپر الیکس کیری کے ساتھ مل کر 68 رنز کی شراکت قائم کی اور پھر نیتھن کاؤنٹر نائیل کے ساتھ مل کر 102 رنز کا اضافہ کیا، جس کے بعد آسٹریلوی ٹیم 288 رنز تک پہنچ گئی اور یوں آسٹریلیا کی ڈوبتی کشتی کو بہت حد تک سہارا مل گیا۔

کیریبین ٹیم 50 اوورز میں 9 کھلاڑیوں کے نقصان پر صرف 273 رنز بناسکی — فوٹو: رائٹرز
کیریبین ٹیم 50 اوورز میں 9 کھلاڑیوں کے نقصان پر صرف 273 رنز بناسکی — فوٹو: رائٹرز

ہدف کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کے اوپنرز ایون لیوس اور کرس گیل صرف 31 رنز پر ہی آؤٹ ہوگئے۔ ابتدائی نقصان کے بعد شے ہوپ اور نکولس پوران نے 68 رنز کی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کی پوزیشن مستحکم کی لیکن اس موقع پر پوران ایک جارحانہ اسٹروک کھیلنے کی کوشش میں اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔ پوران کے آؤٹ ہونے کے بعد شیمرون ہیٹمیئر کھیلنے آئے اور انہوں نے ہوپ کے ساتھ 50 رنز کا اضافہ کیا۔

جب اسکور 149 پر پہنچا تو ہیٹمیئر 21 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوگئے۔ اس وکٹ کے گرنے کے بعد ہوپ کا ساتھ دینے کے لیے کپتان جیسن ہولڈر آئے اور دونوں نے ایک اور اچھی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کو ہدف کے تعاقب کی راہ پر گامزن کردیا۔ مگر 190 کے اسکور پر ہوپ بھی ہمت ہار گئے جس کے بعد کوئی بھی کھلاڑی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرسکا، یوں وقفے وقفے سے وکٹیں گرتی رہیں اور مطلوبہ رن ریٹ بڑھتا رہا۔ ویسٹ انڈیز نے ہدف تک پہنچنے کی کوشش تو بہت کی لیکن کام نہ بن سکتا اور 15 رنز سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

انگلینڈ بمقابلہ سری لنکا

عالمی کپ کے اس 27ویں میچ کو اگر لستھ ملنگا بمقابلہ انگلینڈ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ لیڈز کے مقام پر کھیلے گئے اس میچ میں سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں انجیلو میتھیوز کے 85 رنز کی بدولت 232 رنز جوڑے۔ اب بھلا انگلینڈ کی مضبوط بیٹنگ لائن کو دیکھ کر کس نے سوچا ہوگا کہ میچ کا نتیجہ کچھ اور بھی آسکتا ہے۔

انگلش بلے باز عادل رشید کو آؤٹ کرنے کرنے کے بعد دھننجیا ڈی سلوا جشن منا رہے ہیں— فوٹو: رائٹرز
انگلش بلے باز عادل رشید کو آؤٹ کرنے کرنے کے بعد دھننجیا ڈی سلوا جشن منا رہے ہیں— فوٹو: رائٹرز

اس دن لیڈز کے مقام پر ایک طویل عرصے بعد شائقین کو ملنگا کی باؤلنگ میں ماضی کے اس ملنگ کی جھلک نظر آئی جو اپنی مرضی سے یارکرز کرتا تھا۔ اس دن ملنگا کی شاندار باؤلنگ کے باعث سری لنکا کے دیگر باؤلرز اور فیلڈرز کو بھی حوصلہ ملا اور انہوں نے ایسا کھیل پیش کیا کہ ان کے سامنے انگلینڈ کی مضبوط بلے بازی ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور پوری ٹیم محض 212 رنز کے اسکور پر ڈھیر ہوگئی۔ سری لنکا نے اس میچ میں خلافِ توقع 20 رنز سے فتح حاصل کرکے ٹورنامنٹ کو بھی دلچسپ بنا دیا تھا۔

نیوزی لینڈ بمقابلہ ویسٹ انڈیز

مانچسٹر میں کھیلے گئے اس میچ میں ایک مرتبہ پھر ویسٹ انڈیز کے کپتان نے ٹاس جیت کر مخالف ٹیم کو بلے بازی کی دعوت دی لیکن نیوزی لینڈ کے بلے بازوں نے ان کے اس فیصلے کو غلط ثابت کیا اور مقررہ اوورز میں کپتان کین ولیمسن کے 148 رنز کی بدولت 291 رنز بنائے۔

ہدف کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کی 2 وکٹیں جلدی گرگئیں۔ اس موقع پر شیمرون ہیٹمیئر اور کرس گیل نے 122 رنز کی برق رفتار شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کی پوزیشن مستحکم کی۔ لیکن ناجانے پھر کیا ہوا کہ ایک کے بعد ایک وکٹ گرنا شروع ہوگئی اور جب ٹیم کا اسکور 164 رنز تک پہنچا تو 7 کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے۔

بریتھویٹ نے 101 رنز کی اننگز کھیلی—فوٹو:اے ایف پی
بریتھویٹ نے 101 رنز کی اننگز کھیلی—فوٹو:اے ایف پی

اب یہاں یہ بات طے ہوچکی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں یہ میچ نیوزی لینڈ کی فتح کے ساتھ ختم ہوجائے گا، مگر ایسا ضروری تو نہیں کہ ہم جو سوچے ویسا ہو بھی۔ اور اس بار اکثریت کی رائے کو غلط ثابت کیا کارلوس بریتھویٹ نے، جنہوں ہمت ہارنے کے بجائے نچلے نمبرز کے کھلاڑیوں کے ساتھ ہدف کا تعاقب جاری رکھا۔

بریتھویٹ نے آخری وکٹ کے لیے صرف 23 گیندوں پر تھامس کے ساتھ 41 رنز کی شراکت قائم کی اور اس شراکت میں تھامس کا حصہ صفر تھا۔ اسی شراکت داری کے دوران انہوں نے اپنی شاندار سنچری بھی مکمل کرلی۔ اگلی 7 گیندوں پر ویسٹ انڈیز کو جیتنے کے لیے محض 6 رنز درکار تھا اور ان کی جیت یقینی ہوچکی تھی، مگر وہ شاید کچھ جلد بازی کرگئے۔ 49ویں اوور کی آخری گیند پر بریتھویٹ نے وننگ شات مارنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں وہ باؤنڈری لائن سے محض چند گز کے فاصلے پر ٹرینٹ بولٹ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے۔ یوں ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد نیوزی لینڈ نے 5 رنز سے میچ جیت کر سیمی فائنل کے لیے اپنی راہ ہموار کرلی۔

بھارت بمقابلہ نیوزی لینڈ

پہلا سیمی فائنل نیوزی لینڈ اور بھارت کے مابین مانچسٹر کے مقام پر کھیلا گیا۔ بھارت کو اس میچ میں فیورٹ قرار دیا گیا تھا۔ نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے ٹاس جیت کر بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ بھارت کی ٹیم نے اپنی عمدہ باؤلنگ کی بدولت نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے کا کوئی موقع ہی نہیں دیا۔ نیوزی لینڈ کا اسکور جب 46.1 اوورز کے بعد 211 تک پہنچا تو بارش کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کی وجہ سے میچ کو اضافی دن میں لے جانا پڑا۔

دوسرے دن نیوزی لینڈ نے اپنی اننگز کی بقیہ 23 گیندوں پر 3 وکٹوں کے نقصان پر 28 رنز کا اضافہ کیا اور بھارت کو میچ جیتنے کے لیے 240 رنز کا ہدف دیا۔

اس بار بھی بھارتی مضبوط بیٹنگ لائن دیکھ کر میچ یکطرفہ لگ رہا تھا، لیکن کیوی باؤلروں نے تو جیسے سب کی بولتی ہی بند کردی۔ بھارت کے محض 5 رنز پر جب 3 صفِ اول کے بلے باز روہت شرما، ویرات کوہلی اور کے ایل راہول آؤٹ ہوئے تو ہر طرف حیرانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ 24 رنز کے اسکور پر بھارت کی چوتھی وکٹ اس وقت گری جب جمی نیشام نے میٹ ہینری کی گیند پر پوائنٹ پوزیشن پر کارتک کا ناقابلِ یقین کیچ پکڑلیا۔ جب 30ویں اوور تک بھارت نے صرف 92 رنز بنائے اور اس کی آدھی ٹیم پویلین لوٹ گئی تو اب یہ میچ واضح طور پر نیوزی لینڈ کے حق میں نظر آرہا تھا۔

نیوزی لینڈ نے بھارت کو جیت کے لیے 240 رنز کا ہدف دیا تھا — فوٹو: رائٹرز
نیوزی لینڈ نے بھارت کو جیت کے لیے 240 رنز کا ہدف دیا تھا — فوٹو: رائٹرز

بھارت کی پوری ٹیم 221 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی—فوٹو:اے ایف پی
بھارت کی پوری ٹیم 221 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی—فوٹو:اے ایف پی

اس موقع پر تجربہ کار کھلاڑی مہندرا دھونی اور رویندرا جدیجا نے 7ویں وکٹ کے لیے ایک شاندار شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کو شکست کے دہانے سے نکال کر فتح کی جانب لے گئے۔

بھارت کو آخری 18 گیندوں پر 37 رنز درکار تھے۔ اس موقع پر نیوزی لینڈ کے کپتان نے اپنے ترپ کے پتے ٹرینٹ بولٹ کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور ان کا یہ فیصلہ اس وقت درست ثابت ہوا جب 48ویں اوور کی 5ویں گیند پر جدیجا ایک زور دار شاٹ کھیلنے کی کوشش میں ولیمسن کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے۔

49ویں اوور کی تیسری گیند پر مارٹن گپٹل نے دھونی کو رن آؤٹ کرکے بھارت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ یوں 28 گھنٹے اور 24 منٹ کے دورانیے پر محیط ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد نیوزی لینڈ نے مسلسل دوسری مرتبہ عالمی کپ کے فائنل میں جگہ بنالی۔

عالمی کپ کا ناقابلِ یقین فائنل

اس بار فائنل یوں مزید اہمیت اختیار کرگیا تھا کہ جو ٹیم بھی اس میں فتحیاب ہوگی وہ پہلی مرتبہ ورلڈ چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کرے گی۔ یہ میچ میرے مطابق عالمی کپ کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کا بھی ایک بہترین میچ تھا۔ اس میچ میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر بلے بازی کا جرات مندانہ فیصلہ کیا اور مقررہ اوورز میں 241 رنز بنائے۔ بظاہر یہ ہدف بہت بڑا نہیں تھا لیکن نیوزی لینڈ کی باولنگ، فیلڈنگ اور ورلڈ کپ کے فائنل کے دباؤ کے تناظر میں ایک معقول ہدف تھا۔

اس ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ کی 4 وکٹیں صرف 86 رنز پر گرگئیں، اور نیوزی لینڈ کو اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرنے کے لیے کریز پر موجود بین اسٹوک اور جوس بٹلر کی وکٹ لینا ضروری تھی، لیکن دونوں نے انتہائی ذمہ داری کے ساتھ بیٹنگ کی اور پانچویں وکٹ کے لیے 110 رنز کی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کو میچ میں واپس لے آئے۔ 196 کے اسکور پر بٹلر کے آؤٹ ہونے کے بعد اب یہ مقابلہ اسٹوک بمقابلہ نیوزی لینڈ بن گیا تھا۔

ایک طرف وکٹیں گر رہی تھیں تو دوسری طرف سے اسٹوک رنز بنا رہے تھے۔ آخری اوور میں انگلینڈ کو میچ جیتنے کے لیے 15 رنز درکار تھے اور اس کے 2 کھلاڑی باقی تھے۔ ٹرینٹ بولٹ نے اس آخری اوور کا آغاز کیا اور پہلی 2 گیندوں پر کوئی رن نہیں بن سکا۔

فتح اب نیوزی لینڈ سے چند قدم کے فاصلے پر تھی، لیکن اس اہم ترین موقع پر قسمت کی دیوی ان سے روٹھ گئی۔ آخری اوور کی تیسری گیند کو اسٹوک نے باؤنڈری سے باہر پھینک کر 6 رنز حاصل کرلیے مگر میچ اب بھی نیوزی لینڈ کے قابو میں تھا کیونکہ 3 گیندوں پر اب بھی 9 رنز درکار تھے۔

بولٹ کے اوور کی چوتھی گیند پر اسٹوک نے لانگ آن باؤنڈری کی طرف اسٹروک کھیلا اور دوڑ پڑے۔ اسٹوک کو ہر حال میں 2 رنز حاصل کرنے تھے، لیکن جب انہوں نے دوسرا رن مکمل کرنے کے لیے کریز کے قریب ڈائیو لگائی تو باؤنڈری سے کی گئی مارٹن گپٹل کی تھرو ان کے بیٹ سے ٹکرا کر باؤنڈری کے پار چلی گئی۔ اس اوور تھرو کی بدولت جہاں انگلینڈ کو صرف 2 رنز ملنے تھے وہاں ان کو 6 رنز حاصل ہوگئے۔ اب انگلینڈ کو 2 گیندوں پر 3 رنز درکار تھے۔ آخری 2 گیندوں پر انگلینڈ 2 وکٹوں کے نقصان پر 2 رنز ہی بنا سکا۔ یوں مقررہ 50 اوورز کے اختتام پر دونوں ٹیموں کا اسکور برابر ہوگیا۔

قوانین کے مطابق میچ برابر ہونے کی صورت میں سپر اوور کھیلا جائے گا، اور حسن اتفاق یہ ہوا کہ سپر اوور میں بھی دونوں ٹیموں نے 15، 15 رنز بنائے اور یوں وہ بھی برابر ہوگیا۔

لیکن ایسی صورت میں بھی قانون خاموش نہیں تھا، بلکہ یہ واضح طور پر میں لکھا ہوا ہے کہ اگر سپر اوور میں بھی مقابلہ برابر ہوجائے تو پھر وہی ٹیم فاتح تصور کی جائے گی جس نے سپر اوور میں زیادہ باونڈریز لگائی ہوں گی، اور اسی قانون کی بدولت انگلینڈ پہلی مرتبہ ورلڈ چیمپئن بننے میں کامیاب ہوگیا۔

یہ مقابلہ جہاں انگلینڈ کے لیے خوش قسمت ثابت ہوا وہاں نیوزی لینڈ کے لیے بدقسمت۔ ایسا لگتا ہے کہ نیوزی لینڈ نے اپنی خوش قسمتی کا سارا ذخیرہ ٹورنامنٹ کے ابتدائی مقابلوں میں استعمال کرلیا تھا اور اس فائنل میں قسمت نے ان کا بالکل ساتھ نہیں دیا۔ نیوزی لینڈ عالمی کرکٹ کی تاریخ کی پہلی ٹیم بن گئی جس کو عالمی کپ کے فائنل میں رنز یا وکٹوں سے نہیں بلکہ چوکوں کی تعداد کے فرق کی وجہ سے شکست اٹھانی پڑی۔

کرکٹ ورلڈ کپ 2019ء کے فائنل کے بعد سابق کھلاڑیوں، کوچز اور ناقدین کی جانب سے فائنل کا فیصلہ کرنے کے طریقہ کار پر نکتہ چینی کی گئی۔ ان لوگوں کی جانب سے کی گئی تنقید نے یہ بات واضح کردی کہ مختلف ممالک کے کرکٹ بورڈز شاید ٹورنامنٹ کے لیے متعین کردہ قوانین کی دستاویزات کو بغور پڑھے بغیر ہی ان پر دستخظ کردیتے ہیں۔

عالمی کپ کا یہ فائنل جہاں کھیل کے لحاظ سے ایک معیاری میچ تھا وہاں یہ تمام کرکٹ بورڈز کے لیے ایک سبق بھی ہے کہ وہ تمام قوانیں کو توجہ سے پڑھیں اور ٹورنامنٹ سے پہلے ہی ان میں موجود خامیوں کو دُور کریں کیونکہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں اور ایک مرتبہ جب منزل ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو ہارنے والی ٹیم کے پاس افسوس کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔


خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@