لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ برائے ہیومینٹیز، سوشل سائنسز اور لاء کے ڈین رہ چکے ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ برائے ہیومینٹیز، سوشل سائنسز اور لاء کے ڈین رہ چکے ہیں۔

پاکستان میں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگر ترقی چاہیے تو تعلیم پر زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ انہیں ایک بار پھر ترقی اور تعلیم کے آپسی تعلق کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔

اب مندرجہ ذیل باتوں پر ہی غور کرلیجیے:

آج ہم جن ممالک کو ترقی یافتہ قرار دیتے ہیں، وہاں درحقیقت ترقی کے بعد تعلیم کو فروغ ملا۔ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے مکمل طور پر تعلیم یافتہ ہونے کا انتظار نہیں کرتے، بلکہ یہ ترقی ہی ہے جس نے تعلیم کے پھیلاؤ کی ضرورت کو جنم دیا۔

برطانیہ اُس وقت عالمی سلطنت کے طور پر ابھرا جب وہاں تعلیم کا رجحان زیادہ نہیں پایا جاتا تھا۔ آج یہ ملک عالمگیر تعلیم کا حامل ہونے کے باوجود کچھ زیادہ عالمی اثر و رسوخ نہیں رکھتا۔ تعلیم اور ترقی کے درمیان کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے اور بلاشبہ ترقی کے حصول کے لیے تعلیم ناگزیر عنصر نہیں۔

برٹش انڈیا پر ہی اس فریم ورک کا اطلاق کرکے دیکھیے۔ جب برٹش نے اس خطے پر قبضہ کیا تب یہاں تعلیم عام نہ ہونے کے برابر پائی جاتی تھی لیکن چونکہ کولونی کا انتظام اپنے پسندیدہ طرز کے تحت چلانے کے لیے مقامی لوگوں کی ضرورت تھی، لہٰذا انہوں نے مطلوبہ بابو پیدا کرنے کے لیے محدود بی اے اور ایم اے پروگرامز کا آغاز کردیا۔

دوسری طرف پاکستان ہے جس نے اپنی ضرورت سے بھی زیادہ بابو پیدا کرلیے ہیں۔ 1947ء کے مقابلے میں آج ہم تعلیم کے میدان میں بہت زیادہ آگے ہیں، لیکن ترقی کی بات کریں تو اس حوالے سے ہم آگے ہونے کے بجائے پیچھے جاچکے ہیں۔ دیگر ممالک سے مقابلہ کریں تو ہم جیسی ہی تعلیم کے ساتھ ملائشیا اور انڈونیشیا زبردست حد تک پاکستان سے آگے نکل چکے ہیں۔

تاہم ترقی میں کمی کو تعلیم عامہ کے فقدان سے جوڑنے میں ایک اور مسئلہ بھی نظر آتا ہے، اور وہ اس طرح کہ ملک کے اہم اقتصادی اور سیاسی فیصلے زیادہ پڑھے لکھے افراد ہی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آخر یہ غیر معمولی تعلیم سے آراستہ ہونے کے باوجود بھی اس قدر خراب فیصلے ہی کیوں کر رہے ہیں؟ اب بھلا پڑھے لکھے حکمرانوں کے گناہوں کے لیے غیر تعلیم یافتہ لوگوں پر الزام دھرنا کہاں کا انصاف ہے۔

مذکورہ باتوں سے یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوتی کہ ترقی کے تناظر میں تعلیم عامہ پر بے پناہ زور دینا ٹھیک نہیں، بلکہ اس حوالے سے پڑھے لکھوں کے پالیسی فیصلے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور اگر پالیسیاں ہی خراب ہوں تو پھر کچھ بھی نہیں ہوسکتا، پھر چاہے تعلیم کتنی بھی عام اور کتنی بھی اعلیٰ کیوں نہ ہوں۔

ماحولیاتی تبدیلی اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ گلوبل وارمنگ کے ثبوت سے ہی انکاری ہے، اب آپ ہی بتائیے کہ اس حقیقت کو انکار کرنے کے بعد امریکا میں عالمگیر تعلیم کی موجودگی کا کیا فائدہ ہوا؟

ان دلائل کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تعلیم کی کوئی قدر و قیمت ہے ہی نہیں۔ ظاہر ہے غیر تعلیم یافتہ ہونے سے تعلیم یافتہ ہونا بہتر ہے، لیکن اس نکتے کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پر واضح ہو کہ تعلیم سے مراد کیا ہے اور اس کے علاوہ ہمیں اس کے دو کافی حد تک مختلف کاموں کے درمیان فرق کا بھی پتہ ہو۔

انفرادی سطح پر تعلیم ہر انسان کو اپنے اندر موجود چھپی صلاحیتوں کو بہتر سے بہتر انداز میں بروئے کار لانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ جس طرح نامناسب خوراک جسمانی نمو میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے بالکل ویسے ہی مناسب تعلیم کا فقدان انسان کی شعوری نمو میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ دراصل یہ دونوں رکاوٹیں انسانی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔

تاہم تعلیم آپ کو کافی مختلف آلات سے لیس بھی کرتی ہے، کیونکہ یہ تعلیم ہی ہے جو آپ کے اندر سوچنے، پڑھنے، سوال اٹھانے، شواہد کی تصدیق، عقلی مباحثہ اور سچ و جھوٹ کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ مختصراً کہیں تو تعلیم ہی انسان کو منطقی سوچ پر مبنی زندگی گزارنے کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔

تاہم اس کے بالکل برعکس ہم عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم درحقیقت ادویات، انجینئرنگ اور اکاؤنٹنگ جیسے مختلف ہنر کی تربیت کا نام ہے۔ ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ جتنا جلدی طلبا اس قسم کے ہنر حاصل کرلیں گے اتنا ہی زیادہ ان کے لیے پیسے کمانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ ہائی اسکول میں ہی پروفیشنل تعلیم کا آغاز ہوجاتا ہے۔

ہنر کے حصول کی بے پناہ خواہش میں عام تعلیم (general education) دب جاتی ہے جو اسکولوں کا لازمی طور پر حصہ ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے کئی اعلیٰ درجے کے ٹیکنیشنز موجود ہیں جن کا ذہن عقلی اعتبار سے بند ہے۔

تعلیم کی دوسری قسم کا تعلق مختلف ہنر کے حصول سے ہے جسے لوگ روزگار کی خاطر حاصل کرتے ہیں۔ یہیں پر ہم ایک اہم غفلت کے مرتکب ہوجاتے ہیں، کیونکہ مختلف ہنر کے لیے مطالبہ اقتصادی اور سماجی حالات سے جڑا ہوا ہے۔

مثال کے طور پر اگر معیشت روزگار کے مواقع پیدا نہیں کر رہی ہے تو پروفیشنل افراد کی ایک بڑی تعداد کو تربیت فراہم کردینے سے ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہوا جاسکتا۔ ملازمتوں کی تلاش میں پاکستانی پروفیشنلز کی ایک بڑی تعداد کو دیگر ملکوں کی طرف رخ کرتے ہوئے دیکھ کر ہمیں اس بات کا اندازہ اب تک ہوجانا چاہیے۔ یہ لوگ ترقی کی راہ پر گامزن معیشتوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں مخصوص اقسام کے ہنر مطلوب ہیں۔

اس بات سے اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ ترقی پہلے آتی ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کون سے ہنر مطلوب ہوتے ہیں۔

اقتصادی زبان میں کہیں تو مختلف ہنر کی طلب ماخوذ طلب (derived demand) ہوتی ہے۔ معاشی حالات، اس کی ضروریات اور اس کی پیداواری نوعیت سے ماخوذ ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر، ایک کم آمدن والا ملک جہاں ماحولیاتی حفظان صحت کو بالکل بھی برقرار نہیں رکھا جاتا وہاں اسپیشلائزڈ ڈاکٹروں کو حد سے زیادہ فارغ التحصیل کرتے جانے کی کوئی تُک نہیں بنتی، کیونکہ ہوتا یہ ہے کہ ایسے زیادہ تر ڈاکٹرز باہر چلے جاتے ہیں اور جو بچتے ہیں ان سے علاج کروانے کی اکثر آبادی استطاعت نہیں رکھتی، یوں وہ ان عطائی ڈاکٹروں کے پاس جانے پر مجبور ہوجاتی ہے جو مؤثر طلب کو پورا کرنے میں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

ان دلائل سے یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ اگر پاکستان کا ہر ایک شہری پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرلے تب بھی ملک کے ترقیاتی مسائل حل نہیں ہوجائیں گے بلکہ اس طرح تو موجودہ بحران مزید بدتر ہوجائے گا۔ آج کل نائب قاصد کی ملازمت کے لیے ہزاروں لوگ درخواستیں جمع کرواتے ہیں جن میں سے کئی افراد تو پوسٹ گریجویشن کی ڈگریوں اور پروفیشنل قابلیتوں کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ متعدد وکلا کو اوبر گاڑیاں چلاتے ہوئے بھی پایا جاسکتا ہے۔

ایک اور معاشرتی نقص بھی معیشت کو مطلوب ہنر کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔ لوگ اکثر سوچتے ہیں کہ 20 کروڑ سے زائد آبادی والا ملک جہاں بے انتہا بے روزگاری پائی جاتی ہے وہاں کسی ماہر الیکٹریشن یا پلمبر کو ڈھونڈنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ روزگار اور ترقی مہارت کے بجائے دیگر عناصر پر مبنی ہے؟ اگر زیادہ تر ملازمتوں کی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کے درمیان بندربانٹ ہوتی ہے یا پھر بھاری رشوتوں کے عوض دی جاتی ہیں، تو اضافی مختلف اقسام کے ہنر کے حصول سے اچھا ہے کہ اپنے تعلقات بہتر بنانے پر محنت کی جائے یا پھر ملازمتوں کو خریدنے کے لیے پیسے جٹانے کی جدوجہد کی جائے۔

جب ملک میں یہ حالات ہیں تو پاکستان میں غریب لوگ تعلیم حاصل ہی کیوں کرتے ہیں؟ اس کی بڑی سادہ سی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اقتصادی ترقی سے متعلقہ لیبر کی ضرورت سے زیادہ فراہمی نے معمولی سے معمولی ملازمتوں کی تقرری کے مرحلے میں ڈگریوں کے حامل افراد کو اگلے مرحلے کے لیے چن لیا جاتا ہے۔

اس عمل نے تعلیم کا مقصد صرف اور صرف حصولِ سند بنا دیا ہے۔ اب لوگوں کو ڈگریوں کی ضرورت ہے سو کئی تعلیمی ادارے ڈپلومہ کے کارخانے بن چکے ہیں جو بغیر زیادہ سوچے سمجھے بڑی تعداد میں ڈگریاں بانٹ رہے ہوتے ہیں یا پھر سیدھا فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعلیم پاکستان کی ترقی میں حائل مسائل کا آسان حل نہیں ہے۔ ایک اچھی اسکول کی تعلیم پلیٹ فارم مہیا کرے گی جبکہ مناسب انداز میں ہنر کے حصول کی طرف لے جانے والی ترقی کو تقویت پہنچانے کے لیے معقول اقتصادی اور معاشرتی پالیسیاں درکار ہوں گی۔


یہ مضمون 25 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (3) بند ہیں

Talha Jul 29, 2019 03:20pm
Aik achiee tehreer.....
Saghir Ahmad Jul 31, 2019 11:04am
تعلےم ترقی کی ضامن نہی لےکین علم ترقی کا ضامن ہے۔
Saghir Ahmad Jul 31, 2019 11:15am
یہاں علم نہی دیا جا رہا بلکہ طوطوں کو رٹوایا جاتا ہے۔ جن کو مطلب کا پتا نہی ھوتا لیکن وہ بول سکتے ہیں۔ یہاں تعلیمی ادارے فوٹو کاپی کی مشینیں بن چکی ہیں جن کی مشین اور کاغذ دونوں درامدی ہیں۔