irfan.husain@gmail.com
[email protected]

اقتدار کی کھڑی چٹان چڑھنے کی برسوں پر محیط کوششیں بالآخر رنگ لے لائیں اور عمران خان نے اپنے دوستوں کی تھوڑی بہت مدد کی بدولت اسے سَر کر ہی لیا۔

لیکن اب جبکہ وہ اقتدار کے اعلیٰ منصب پر براجمان ہوچکے ہیں تو کیا خان صاحب واقعی سمجھتے ہیں کہ ان کی محنت رنگ لا چکی ہے؟ وہ کئی ایسے عناصر میں گِھرے دکھائی دیتے ہیں جو ان کے بیانات اور اعلانات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور اب ان کے پاس عملی قدم اٹھانے کے لیے بہت ہی کم آزادی بچی ہے۔

ایک سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کا دیوالیہ پن ہے، یہاں تک کہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کے باوجود بھی ملکی خزانے میں اتنا دھن نہیں کہ وہ اپنے وعدہ وفا کرسکیں۔ چنانچہ ان کے لاکھوں نوجوان بے روزگار حامیان کو ملازمت حاصل کرنے کے لیے مزید انتطار کرنا ہوگا، جس کا عمران خان نے ان سے وعدہ کیا تھا۔

اگلی رکاوٹ کا تعلق اسی عنصر سے ہے جو ان کا بڑا سہارا بھی ہے، یعنی خارجہ پالیسی اور معیشت کے اہم معاملات میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا غالب عمل دخل۔ یہی نہیں بلکہ یہ مقامی سیاست کی لغام بھی اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے نظر آتی ہے۔ ان کے اس متحرک عمل کے باعث وزیرِاعظم کا کردار تنگ سے تنگ تر ہوچکا ہے۔

پھر ہے 18ویں آئینی ترمیم جس نے متعدد اہم وفاقی اختیارات صوبوں کو منتقل کردیے ہیں۔ لہٰذا اگر خان صاحب ہمارے نظامِ تعلیم میں جدت لانا چاہتے ہیں جو بلاشبہ ان کا ایک قابلِ تعریف عزم ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک صوبے راضی نہ ہوں، اور صوبوں کو یہ مکمل حق ہے کہ وہ ایسا ہونے سے وفاق کو روک دیں۔ پھر صوبے وفاقی فنڈز میں سے مختص کردہ حصہ حاصل کرتے ہیں، جس کے باعث ریونیو کی تقسیم میں اسلام آباد کا حصہ بہت حد تک محدود ہوجاتا ہے۔

حالیہ دورہ واشنگٹن کو بھلے ہی کامیاب قرار دیا جارہا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو اس وقت افغانستان میں اپنی 18 سالہ موجودگی ختم کرنی ہے جس کے لیے انہیں پاکستان کی مدد درکار ہے۔

حال ہی میں افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ امریکیوں کو ان کی ساکھ مجروح کیے بغیر باہر کا راستہ دکھایا جائے گا اور جب تک انخلا کا عمل پورا نہیں ہوجاتا تب تک ظاہر ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اگرچہ ایسا نہیں کہ بش-مشرف دور زندہ ہوجائے گا اور اس دور کی طرح ہم پر زبردست مالی مہربانیوں کا ریلا بہنے لگے گا، بلکہ اس بار شاید محض شیریں لفظوں کی بھرمار سے ہی کام چلایا جائے گا۔

ہاں یہ بھی عین ممکن ہے کہ افغان تنازع کے دوران بچ جانے والا استعمال شدہ اسلحہ ہماری جھولی میں ڈال دیا جائے کیونکہ ویسے بھی ہتھیاروں کو اپنے ساتھ امریکا لے جانا مہنگا پڑے گا جبکہ انہیں پاکستان کے حوالے کرنے میں زیادہ خرچہ نہیں ہوگا۔ حالانکہ ہمیں اس وقت پیسوں اور امداد کے سلسلے کو بحال کرنے کے لیے کانگریس کی حمایت درکار ہے اور بظاہر ایسا ہونے کے امکانات زیادہ روشن نہیں دکھائی دیتے۔

وعدہ اور وفائے وعدہ کے درمیان حائل خلیج میں عمران خان اکیلے نہیں ہیں بلکہ برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن بھی اپنے ملک کے کونے کونے میں جاکر صحت سے لے کر زراعت تک ہر شعبے میں بڑی بڑی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم نو ڈیل بریگزٹ کے باعث پیدا ہونے والے ممکنہ مالی بحران کو مدِنظر رکھیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ وعدے غیر اعلانیہ انتخابی مہم کا حصہ ہیں۔

ٹرمپ کو میکسیکو کی سرحد پر اپنی مشہورِ زمانہ دیوار کھڑی کرنے کے لیے فنڈ حاصل کرنے میں قریب 3 سالوں کا عرصہ لگا۔ ڈیموکریٹس کی جانب سے اس منصوبے کے لیے درکار اربوں ڈالر کی منظوری سے انکار کے بعد مایوس ہوچکے صدر ٹرمپ کو بالآخر سپریم کورٹ نے اس منصوبے پر عمل شروع کرنے کے لیے سبز جھنڈی دکھا دی ہے۔ براک اوباما کے صحت پروگرام اور پھر انہی کی ماحولیاتی تحفظ کی پالیسیوں کے خاتمے کی کوششیں کرنے پر صدر ٹرمپ متعدد امریکی ریاستوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرچکے ہیں۔

پیوٹن، اردوان اور دوترتے جیسے دیگر مقبولِ عام سربراہانِ مملکت کسی بھی ادارہ جاتی اعتراضات کو اپنے مقاصد کے آڑے نہیں آنے دیتے۔ نواز شریف 1990ء کی دہائی میں جب اقتدار میں تھے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ انہیں زیادہ تر موٹر ویز پنجاب کے اندر ہی تعمیر کرنی ہیں تو وزارتِ خزانہ نے انہیں بتایا کہ منصوبے کے لیے مطلوبہ رقم موجود ہی نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس بات پر ان کا ردِعمل یہ تھا کہ، ’کیا شیر شاہ سوری کو لاہور سے کلکتہ تک گرینڈ ٹرنک روڈ تعمیر کروانے کے لیے اپنی وزارتِ خزانہ کی منظوری مطلوب تھی؟‘

عوامی مقبولیت رکھنے والے سربراہان اپنے حامیوں کو خوش رکھنے کے لیے جمہوری نزاکتوں کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی نے اپنی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو خوش رکھنے کے لیے کشمیر کو حاصل اسپیشل اسٹیٹس کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس قسم کے رہنما اپوزیشن اور میڈیا کو اپنی راہ کی ایسی رکاوٹوں کے طور پر دیکھتے ہیں جنہیں آئینی چیک اینڈ بیلنس میں شامل رکھنے کے بجائے کنارے سے لگایا یا پھر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ ان کے ساتھ بات چیت اور ان کے کردار کو تسلیم کرنے کے بجائے عوامی مقبولیت کے حامل رہنما ان کے خلاف مقدمات دائر کرتے ہیں اور مکمل طور پر دبائے رکھتے ہیں۔ ان کوششوں میں عمران خان کی حکومت بہت حد تک کامیاب رہی ہے۔

تاہم ایسے رہنما اپنے دائرہ اختیار کی حدود کو آزمانے کے علاوہ خود جمہوریت کی حدود کا بھی امتحان لیتے ہیں۔ ٹرمپ بظاہر طور پر اپنے عہدے کو استعمال کرتے ہوئے مزید امیر بننے اور مفادات کے ٹکراو کی خاطر آئینی حدود کو بارہا نظر انداز کرچکے ہیں۔ امریکی صدر کی جانب سے اپنی بیٹی اور داماد کو مشیر تعینات کرنا اقربا پروری کی روشن مثال ہے۔

بھرے جلسے میں عمران خان پارلیمنٹ پر لعن طعن کرکے توہین پارلیمنٹ کے مرتکب ہوئے تھے۔ کئی سال پہلے جب وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تب سے لے کر موجودہ وقت تک قومی اسمبلی میں ان کی حاضری کا ریکارڈ نہایت ہی بُرا رہا ہے۔

میری حال ہی میں قاہرہ میں مقیم ایک صحافی سے ملاقات ہوئی اور ان سے میں نے پاکستانی میڈیا پر جاری جبر کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے مجھے جواب دیا کہ اگر مجھے حقیقی کریک ڈاؤن دیکھنا ہو تو مجھے مصر آنا چاہیے۔ دوسری طرف ترکی دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ صحافی جیلوں میں بند ہیں۔

ٹرمپ کی شاید ہی ایسی کوئی تقریر ہوگی جس میں انہوں نے میڈیا پر شدید تنقید نہ کی ہو اور ان پر ’جعلی خبروں‘ کے الزامات نہ لگائے ہوں۔

مقبولِ عام سیاستدانوں کے اس قسم کے غیر جمہوری رویے کی حمایت ان کے حامیوں میں پائی جاتی ہے جو غیر یقینی کے دور میں مضبوط رہنما کے طلبگار ہوتے ہیں، لیکن یہی رہنما جمہوریت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔


یہ مضمون 17 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں