جی آئی ڈی سی آرڈیننس واپس لیا جانا بد قسمتی ہے، تاجر برادری

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2019
آرڈیننس واپس لیے جانے کا مطلب ہے کہ کئی سالوں سے حکومت اور ڈیفالٹرز کے درمیان جاری قانونی جنگ آئندہ بھی جاری رہے گی — فائل فوٹو/رائٹرز
آرڈیننس واپس لیے جانے کا مطلب ہے کہ کئی سالوں سے حکومت اور ڈیفالٹرز کے درمیان جاری قانونی جنگ آئندہ بھی جاری رہے گی — فائل فوٹو/رائٹرز

لاہور: حکومت کا مختلف انڈسٹریز کو گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کے 416 ارب روپے کے بقایاجات کو 50 فیصد رعایت کے ساتھ ادا کرنے کے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے اور اسے ایک ہفتے میں ہی واپس لینے پر تاجر برادری نے برہمی کا اظہار کیا۔

آرڈیننس واپس لیے جانے کا مطلب ہے کہ کئی سالوں سے حکومت اور ڈیفالٹرز کے درمیان جاری قانونی جنگ آئندہ بھی جاری رہے گی۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے 27 اگست کو صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت صنعتوں سے 420 ارب روپے کے جی آئی ڈی سی تنازع کے حوالے سے تصفیے کی پیشکش کی گئی تھی۔

آرڈیننس کے تحت صنعت، فرٹیلائزر اور سی این جی کے شعبے 50 فیصد بقایاجات کو 90 روز میں جمع کراکر مستقبل کے بلوں میں 50 فیصد تک رعایت حاصل کرسکتے ہیں جبکہ انہیں اس حوالے سے عدالتوں میں موجود کیسز بھی ختم کرنے ہوں گے۔

اس آرڈیننس کو جاری کرنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت پر شدید تنقید کی جارہی تھی۔

فیصل آباد کے پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین خرم مختار کا کہنا تھا کہ 'آرڈیننس کو واپس لیا جانا بدقسمتی ہے، حکومت اور صنعت دونوں نے نئے آغاز کا موقع گنوا دیا'۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا گیس انفرااسٹرکچر سرچارج سے متعلق آرڈیننس واپس لینے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ فیصلے سے پنجاب کی صنعتوں کو فرق نہیں پڑے گا کیونکہ زیادہ تر صارفین اپنے بقایا جات کا بڑا حصہ ادا کر رہے ہیں تاہم اس سے کراچی سمیت سندھ کی صنعتیں متاثر ہوں گی کیونکہ انہوں نے اس پر حکم امتناع لے رکھا ہے اور وہ جی آئی ڈی سی کے بقایاجات ادا نہیں کر رہے ہیں'۔

اس ہی طرح کے خیالات کا اظہار جی آئی ڈی سی میں آنے والی مختلف صنعتوں سے تعلق رکھنے والی دیگر کاروباری شخصیات نے بھی کیا۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی کے سابق چیئرمین ایس ایم تنویر کا کہنا تھا کہ 'معاہدے کے اطلاق سے حکومت کو مستقبل میں مستقل آمدنی حاصل کرنے کا موقع ملتا اور صنعتوں کو جی آئی ڈی سی کی لاگت میں کمی کا موقع ملتا جبکہ ان کا عدالتی کارروائیوں کا خرچ بھی بچ جاتا'۔

فرٹیلائزر کمپنی کے ایگزیکٹو کا ماننا ہے کہ اس معاہدے سے صنعت کو یوریا کی قیمت کم رکھنے کے لیے مدد حاصل ہوتی۔

یہ بھی پڑھیں: 210 ارب روپے کے 'جی آئی ڈی سی' کا خاتمہ مفت کا کھانا نہیں، وزیر توانائی

نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر انہوں نے بتایا کہ 'فرٹیلائزر انڈسٹری سے آرڈیننس کے واپس لیے جانے سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہمیں اب اپنی قیمتوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی، ہم حالیہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کو برداشت کرتے ہوئے یوریا کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھے ہوئے ہیں کیونکہ حکومت نے ہمیں جی آئی ڈی سی بقایاجات کے تصفیے اور مستقبل میں اس کی شرح میں کمی کی یقین دہانی کرائی تھی'۔

آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے نمائندے غیاث پراچہ نے وزیر اعظم کے فیصلہ پر شدید برہم نظر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میری نظر میں حکومت اور کاروباری برادری کو تکنیکی تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ ہر معاملے کو عدالت لے کر جائیں، جی آئی ڈی سی آرڈیننس نے بقایاجات کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کا موقع فراہم کیا تھا، میں دونوں حکومتوں اور کاروباری افراد سے گزارش کروں گا کہ ایک جگہ بیٹھ کر عدالت کے باہر اس معاملے کو حل کریں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں