بریگزٹ: برطانیہ میں غیرملکی طلبہ کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد دو سال تک ملازمت کی اجازت

اپ ڈیٹ 11 ستمبر 2019
’ایمیگریشن واچ برطانیہ‘ کے چیئرمین ایلپ مہمٹ نے حکومتی فیصلے کی مخالفت کی—فوٹو: رائٹرز
’ایمیگریشن واچ برطانیہ‘ کے چیئرمین ایلپ مہمٹ نے حکومتی فیصلے کی مخالفت کی—فوٹو: رائٹرز

برطانیہ کی حکومت نے بعد از بریگزٹ (یورپی یونین سے علیحدگی) امیگریشن پالیسی کا اعلان کردیا جس کے تحت غیرملکی طلبہ کو گریجویشن مکمل کرنے کے بعد 2 سال تک ملازمت کی اجازت ہوگی۔

خبررساں ادارے اےایف پی کے مطابق سیکریٹری تجارت اینڈریا لیڈسن نے کہا کہ مذکورہ تبدیلی کا مقصد دنیا بھر سے ’شان دار تعلیمی کارکردگی کے حامل طلبہ‘ کی پذیرائی اور یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ کی ترجیحات کی ایک علامت ہے'۔

مزیدپڑھیں: بریگزٹ تنازع: برطانوی وزیراعظم کے بھائی پارلیمنٹ،وزارت سے مستعفی

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یورپی یونین سے طلبہ کی آزادانہ آمد و رفت کے بجائے، برطانیہ غیرملکی طلبہ کی موجودگی سے فائدہ اٹھائے گا اور یقیناً یہ ہمارے لیے خوش آئند ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں 2030 تک 30 فیصد اضافہ چاہتی ہے جو کم از کم 6 لاکھ بنتے ہیں۔

لیڈسن نے کہا کہ ’گریجویشن کے بعد 2 سال تک ملازمت کرنے سے طلبہ کی ڈگری کی اہمیت بڑھے گی‘۔

مزیدپڑھیں: ملکہ برطانیہ نے پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دے دی

ان کا کہنا تھا کہ ’نئی صلاحیت اور نئی صعنتیں ابھر رہی ہیں اور ہماری کوشش ہوگی کہ غیرملکی طلبہ کو موقع فراہم کریں‘۔

’امیگریشن واچ برطانیہ‘ کے چیئرمین ایلپ مہمٹ نے حکومتی فیصلے کی مخالفت کی اور کہا کہ مذکورہ فیصلہ ’غیرشعوری‘ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس اقدام سے ماضی کی طرح غیرملکی طلبہ دوبارہ گریجویشن کرنے کے بعد سکونت اختیار کرلیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہماری جامعات غیرملکی طلبہ کے لیے پہلے ہی توجہ کا مرکز ہیں تاہم بیک ڈور سے کام کرنے کی اجازت دے کر تعلیمی ویزے کی اہمیت کو کم نہ کیا جائے‘۔

بریگزٹ بحران

بریگزٹ معاملے پر برطانیہ کے سابق وزیراعظم تھریسامے کی طرح نومنتخب وزیراعظم بورس جانسن کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے اور یہ معاملہ ایک بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے جہاں پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی بھی منظوری دی جاچکی ہے۔

بورس جانس کے وزیراعظم بننے کے بعد ان کے بھائی اور وزیر جو جانسن نے استعفے دے دیا تھا اس کے علاوہ پارلیمنٹ کے اسپیکر سمیت دیگر ارکین کی جانب سے بھی شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

برطانیہ کے دارالعوام کے اسپیکر جان بیرکاؤ نے حکومت کو پارلیمنٹ کی 'تذلیل' نہ کرنے کے لیے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دوں گا۔

اسپیکر جان بیرکاؤ نے برطانیہ کے بریگزٹ بحران کے دوران ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا اور اراکین پارلیمنٹ کو حکومتی پالیسی کو چیلنج کرنے کے حوالے سے پارلیمانی قواعد کو چھیڑا تھا جس میں حال ہی میں یورپین یونین سے دست برداری کو روکنے کے لیے منظور کیا گیا قانون بھی شامل ہے۔

مزیدپڑھیں: بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ، برطانوی وزیر اعظم کو بدترین شکست

خیال رہے کہ وزیراعظم بورس جانسن کی جانب سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے فیصلے پر ہر طرف سے شدید تنقید کی جارہی ہے کیونکہ ملکی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ چند ہفتے بعد ہونے جارہا ہے ایسے میں پارلیمنٹ غیر فعال ہو کر رہ جائے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کے بھائی جو جانسن نے بریگزٹ تنازع میں’خاندانی وفاداری اور قومی مفاد میں الجھاؤ‘ کے باعث پارلیمنٹ اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

جو جانسن کا کہنا تھا کہ’9 برس تک لندن کے مضافاتی علاقے آرپنگٹن کی نمائندگی اور 3 وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بڑے اعزاز کی بات ہے‘۔

پارلیمنٹ معطلی کا فیصلہ

برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ دوم نے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر وزیراعظم بورس جانسن کی درخواست پر پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

وزیر اعظم کے فیصلے کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ملکہ برطانیہ کی منظوری کے بعد ستمبر کے دوسرے ہفتے میں پارلیمنٹ معطل کردی جائے گی اور 5 ہفتوں بعد ملکہ ایلزبتھ دوم 14 اکتوبر کو تقریر کریں گی، تاہم اب نئی صورت حال سامنے آگئی ہے۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم تھریسا مے کو بریگزٹ معاملات میں ناکامی پر اپنے منصب سے استعفیٰ دینا پڑا تھا جس کے بعد بورس جانسن برطانیہ کے وزیراعظم بن گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں