۔۔۔فائل فوٹو۔
۔۔۔فائل فوٹو۔

جنگل کا شہزادہ اور وہ بھی کراچی کے قریب، بیس برس پہلے اس انکشاف پر میں بُری چونکا تھا۔ جب سنا کہ سندھی تیندوا خاندان کا وہ آخری شہزادہ ایک رکنِ قومی اسمبلی اور قبائلی سردار کے ہاتھوں مارا گیا تو حیرت افسردگی میں بدل گئی تھی۔

یہ انکشاف کیرتھر نیشنل پارک کے عمر رسیدہ گیم انسپکٹر نے کیا تھا، بعد میں محکمہ جنگلی حیات، سندھ کی دستاویزات اور حکام نے تصدیق کردی. یہ اور بات کہ سرکاری دستاویز میں موت کے بعد کئی برس تک اسے زندہ رکھا گیا۔

بقائے ماحول و قدرتی وسائل کی عالمی تنظیم آئی یو سی این کے جائزے 'ریڈ لِسٹ سن دو ہزار' کے مطابق دنیا بھر میں معدومی سے دوچار جنگلی حیات کی سترہ اقسام کیرتھر نیشنل پارک میں پائی جاتی ہیں۔ اس فہرست میں تیندوا بھی شامل تھا۔

کیرتھر نیشنل پارک رقبے کے لحاظ سے، ہنگول نیشنل پارک کے بعد سب سے وسیع کہا جاتا ہے۔ معدومی کے خطرے کا سامنا کرنے والے آئیبیکس کو بچانے کی خاطر 13 اپریل  1972 کو سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈیننس کے تحت اسے 'محفوظ علاقہ' قرار دیا گیا۔

سپر ہائی وے پر شمال کی جانب سفر کرتے ہوئے، کراچی سے لگ بھگ اسّی کلومیٹر دور، نوری آباد انڈسٹریل ایریا سے بائیں ہاتھ پر غیر معروف چھوٹی سی سڑک پر مڑتے ہی نیشنل پارک کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں مگر اس کے مرکز 'کِرچات' کا فاصلہ یہاں سے مزید اسّی کلومیٹر ہے۔

پارک کے جنوب میں محل کوہستان وائلڈ لائف سنکچری سنکچ، مشرق میں سُور جان، سمبک، ایری، ہوتھیانو گیم ریزرو، جنوب مغرب میں حب ڈیم وائلڈ لائف سنکچری جب کہ شمال مغرب میں اس کی سرحد بلوچستان سے ملتی ہے۔  جغرافیائی طور پر یہ سندھ کے کم بارشوں اور خشک پہاڑی سلسلے والے نیم قبائلی خطّے 'کوہستان' میں واقع ہے۔

'محفوظ علاقہ' قرار دینے کا بنیادی مقصد آئیبیکس کی بقا تھی لیکن یہاں یہ تنہا نہیں، کئی اور جنگلی انواع بھی پائی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار میں پارک کی جنگلی حیات کے سروے کے مطابق یہاں جانوروں کی دو سو ستائیس جب کہ پرندوں کی دو سو تیس اقسام پائی گئی تھیں۔

'کیر تھر نیشنل پارک بیس لائن اسٹڈی' کے نام سے کیے سروے رپورٹ کے مطابق یہاں رینگنے والی جنگلی حیات کی چونتیس اقسام بھی پائی گئیں۔ سروے میں تیندوے کا ذکر بھی تھا لیکن معدومی کی تصدیق کے ساتھ۔

ماہرینِ جنگلی حیات کہتے ہیں کہ پاکستان میں تیندوے کی صرف ایک قسم پائی جاتی ہے، ذیلی انواع کے بارے میں اختلاِف ہے۔ پاکستان میں جنگلی ممالیہ پر سن اُنیّسو پچھہتر کی تحقیق کے مطابق یہاں تیندوے کی دو ذیلی انواع ملتی ہیں: شمالی ایرانی تیندوا اور سندھی تیندوا۔ (پاکستان کی جنگلی حیات، اُردو سائنس بورڈ لاہور)

تاہم 'میملز آف پاکستان' (پاکستانی ممالیہ) کے مولف اور جنگلی حیات کے ماہر ٹی جے رابرٹس نے سن اُنیسو ستتر کی تحقیق میں لکھا کہ پاکستان میں تیندوے کی دو اور ذیلی انواع بھی پائی جاتی ہیں: ہندوستانی تیندوا، کشمیری تیندوا۔

دراصل شمالی سرحدوں سے جنوب تک ملنے والے تیندؤں کے جسموں پر انفرادی داغ دھبوں اور معمولی فرق کے باعث اس درجہ بندی پر اختلاف پیدا ہوا، بہر حال ذیلی نوع کی حد تک، ہندوستانی اور کشمیری تیندوے پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کی حد تک پائے جاتے ہیں۔

غالب خیال یہی ہے کہ کیرتھر نیشنل پارک کا تیندوا سندھی نسل سے تھا۔ یہ تو طے تھا کہ یہاں کا آخری اور غالباً پورے سندھ میں تیندوے کی نسل کا آخری چشم و چراغ مارا جاچکا مگر اعتراف طویل عرصے تک ابہام کے پردے میں رہا۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے شائع کردہ کتابچے کے مطابق، 'کیرتھر نیشنل پارک میں سن اُنیّس سو بیاسی کے سروے کے مطابق سات تیندوے پائے گئے تھے۔ تاہم سن دو ہزار میں پارک کے بنیادی جائزے (بیس لائن) کے مطابق 'یہاں تیندوا آخری بار سن اُنیّس سو اٹھتّر میں دیکھا گیا تھا، خیال ہے کہ پارک سے اس کی نسل ختم ہوچکی۔'

سن اسّی کی دہائی کے اوائل میں ٹی جے رابرٹس کے ساتھ پارک سروے میں شامل محکمہ جنگلی حیات کے ماہر اور اب ڈپٹی انسپکٹر جنرل فاریسٹ عبدالمناف قائم خانی تصدیق کرتے ہیں کہ 'تیندوا سن ستّر کی دہائی کے وسط میں یہاں سے معدوم ہوچکا۔'

اٹھارہ بیس برس قبل پارک کی سیاحت میں میرے ہم سفر محکمہ جنگلات کے ایک معمر گیم انسپکٹر تھے۔ تب انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر آنکھوں دیکھی کہی تھی۔ اب جب کہ وہ شاید عرصہ پہلے ریٹائر ہوچکے ہوں، مجھے ان کا نام یاد نہیں رہا۔

کیرتھر کے نواح سے تعلق رکھنے والے اس اہلکار کا کہنا تھا کہ سن ساٹھ کی دہائی میں یہاں کافی سارے شیر تھے، میں نے خود انہیں دیکھا۔ یہاں بڑے بڑے سردار اور جاگیردار شیر کا شکار کرنے آتے تھے۔ (مقامی باشندے تیندوے کوشیر کہتے ہیں)۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک تو یہ علاقہ سندھ ۔ بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے، دوسرے سرداری نظام رائج ہے لہٰذا مقامی سردار، دوسرے سرداروں اورمعزز شخصیات سے تعلقات مضبوط بنانے کی خاطر انہیں یہاں شکار کھلاتے تھے، ویسے بھی اس زمانے میں شیر کا شکار تو تھ اہی بڑی بات۔

جہاں دیدہ گیم انسپکٹر کا کہنا تھا کہ یہ سن اُنیس سو چھہتر یا ستتر کی بات ہوگی، کھیر تھر نیشنل پارک میں ایک قبائل سردار شکار کھیلنے آئے۔ اس وقت وہ خود بھی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ پارک کا آخری شیرانہی کی گولی کا نشانہ بنا۔ اس کے بعد پھر کبھی شیر یہاں نظر نہ آیا۔

جنگل کے شاہی خاندان کا آخری شہزادہ 'قانون ساز' سردار کے ہاتھوں ماراگیا۔


 mukhtar-80 مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں