حکومت سے استعفیٰ لینے کا ہدف برقرار ہے، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2019
مولانا فضل الرحمٰن نے ضلعی ہیڈکوارٹرز پر مظاہرے کرنے کا عندیہ دے دیا — فائل فوٹو/ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے ضلعی ہیڈکوارٹرز پر مظاہرے کرنے کا عندیہ دے دیا — فائل فوٹو/ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ حکومت سے استعفیٰ لینے کا ہدف برقرار ہے اور دباؤ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

نجی چینل 'ایکسپریس نیوز' کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ان کی تحریک 26 جولائی 2018 سے شروع ہوگئی تھی، نومبر 2018 سے جولائی 2019 تک ہم نے 15 ملین مارچ کیے اور پھر اسلام آباد میں عوامی قوت کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مسئلہ صرف ایک ہی تھا جس پر تمام سیاسی جماعتیں جولائی 2018 میں ہی متحد ہوگئی تھیں کہ دھاندلی کی گئی ہے'۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے سنجیدہ طبقے سمجھتے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مطالبات کو نظر انداز نہیں کیا جاتا اور تمام سیاسی جماعتیں دوبارہ انتخابات کے انعقاد پر متفق ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت مخالف مہم: مولانا فضل الرحمٰن نے کثیر الجماعتی کانفرنس طلب کرلی

'اگلے سال کے ابتدائی مہینوں میں انتخابات کرانے ہوں گے'

انتخابات کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کا طریقہ کار واضح ہے کہ انتخابات پر فوج کو اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اتنی قوت کے ساتھ اسلام آباد آئے اور آرام سے اٹھ کر چلے گئے ایسا بلاوجہ نہیں ہوا ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'حکومت سے استعفیٰ لینے کا ہدف برقرار ہے، ہم اسلام آباد سے گھروں کو نہیں گئے ہیں اور جلد ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر مظاہرہ کرنے جارہے ہیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہم اسلام آباد سے چلے گئے تو ملک میں سکون ہوگیا تو ایسا نہیں ہے، دباؤ بڑھتا جائے گا اور ہمیں اگلے سال کے ابتدائی مہینوں میں پاکستان کے اندر انتخابات کرانے ہوں گے اور ہم یہاں تک تقریباً پہنچ چکے ہیں'۔

'سیاست مذہب کا حصہ ہے'

مذہب کارڈ کے استعمال کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'مذہب اور سیاست کا گہرا تعلق ہے، سیاست مذہب کا حصہ ہے، اگر توہین رسالت کے ملزم کو بری کیا گیا ہے تو اس بات پر قوم کو مطمئن کرنا چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ جن چیزوں کو آئین تحفظ دے رہا ہو اور اس کا مطالبہ کیا جانے لگے تو اسے مذہب کارڈ کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو کا فضل الرحمٰن کی کثیرالجماعتی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ

انہوں نے سوال کیا کہ 'کیا میرا حق نہیں کہ مذہب کے حوالے سے میری تشویش پر مجھے مطمئن کیا جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس حکمران کو پاکستانی حکمران تسلیم نہیں کرتے، یہ ایجنڈے کے تحت لایا گیا حکمران ہے جو پاکستان کے مفادات کا کبھی تحفظ نہیں کرسکتا'۔

'دھرنے کے شرکا کے ساتھ ہی رہا، دکھاوا نہیں کیا'

آزادی مارچ میں شرکا کی تعداد کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری پہلی جمعے کی نماز اور سیرت طیبہ کانفرنس میں شرکا کی پوری حاضری تھی جس میں 15 لاکھ سے زائد افراد تھے اور اس کا اعتراف بین الاقوامی میڈیا نے بھی کیا ہے، تاہم باقی وقت لوگ آتے جاتے رہتے کیونکہ یہ ایک نشست نہیں تھی'۔

دھرنے کے شرکا کے ساتھ نہ رہنے کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'دھرنے کے شرکا کے ساتھ ہی رہا ہوں اور دکھاوا نہیں کیا'۔

دیگر اپوزیشن جماعتوں سے تعلقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'دھرنے کے بعد بھی تمام جماعتوں سے تعلقات اچھے ہیں، جس سطح پر جس جماعت نے جو کچھ کیا ہم اس کا احترام کرتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ تحاریک میں اتار چڑھاؤ آتا ہے تاہم وہ سمندر کی لہروں کی طرح ساحل پر جاکر ہی دم لیتی ہیں۔

نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عارضہ انسان پر کبھی بھی لاحق ہوسکتا ہے تاہم بیماری کا کارڈ استعمال کرنا بد اخلاقی کے ضمرے میں آتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'اداروں کو ہم نے حکمرانوں کی پشت پناہی سے پیچھے ہٹنے کا کہا تھا جس پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے سوال کیا کہ کس ادارے کی بات کر رہے ہیں تاہم ہم نے اس کا نوٹس نہیں لیا کیونکہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں یہ سوال کیا تھا'۔

انہوں نے بتایا کہ 'چند روز بعد جب ان کا بیان آیا کہ فوج غیر جانبدار ہے تو ہم نے اس کا خیر مقدم کیا اور اعتماد کیا'۔

'آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کو سیاسی مسئلہ نہ بنایا جائے'

آرمی چیف سے ملاقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایک ملاقات ہوئی جو طویل اور بہت اچھے ماحول میں رہی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کو سیاسی مسئلہ نہ بنایا جائے، ہمارا موقف ہے کہ فوج کو سیاست سے باہر رکھا جائے اور اس مسئلے کو بھی سیاست کے میدان میں نہیں کھینچنا چاہتے'۔

انہوں نے واضح کیا کہ 'اگر آئندہ سال انتخابات نہیں ہوتے تو اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے، ہم خاموش نہیں رہیں گے'۔

عمران خان کی جانب سے انہیں ڈیزل کہنے کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'عمران خان کی زبان سے کبھی مایوس نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس ہی اخلاق کا بندہ ہے، میں نے اگر کوئی ڈیزل کا پرمٹ لیا ہے یا کوئی غلط کاروبار کیا ہے تو سامنے لائیں'۔

بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی تنخواہ اور مراعات لینے کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے تنخواہ نہیں لیتا تھا تاہم کوئی بیرون ممالک سے سفیر وغیرہ سامنے آتے تھے تو ان کی میزبانی کرنی پڑتی تھی جس میں اخراجات تو آتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'عوام میں کسی کی تضحیک یا تذلیل کے لیے گند پھینکنے کا رواج منفی رواج ہے اسے ختم ہونا چاہیے'۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'افغان طالبان کے ساتھ بہت مظالم ہوئے ہیں انہیں انسان سمجھا ہی نہیں جاتا، نائن الیون میں کئی ابہامات ہیں تاہم 5 ہزار لوگوں کے بدلے میں 20، 25 لاکھ لوگوں کے گلے کاٹنا کسی طور پر جائز نہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں