شہباز شریف نے الیکشن کمیشن عہدیداران کے نام وزیراعظم کو ارسال کردیے

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2019
شہباز شریف نے امید ظاہر کی تھی کہ نام بھجوانے کے بعد وزیراعظم کی جانب سے جلد جواب دیا جائے گا—تصویر: فیس بک
شہباز شریف نے امید ظاہر کی تھی کہ نام بھجوانے کے بعد وزیراعظم کی جانب سے جلد جواب دیا جائے گا—تصویر: فیس بک

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے وزیراعظم کو 3 نام تجویز کردیے۔

خیال رہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) سردار محمد رضا 6 دسمبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے۔

لہٰذا شہبازشریف نے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے 3 نام وزیراعظم کو بھجوادیے جن میں ناصر سعید کھوسہ، جلیل عباس جیلانی اور اخلاق احمد تارڑ کے نام شامل ہیں۔

وزیراعظم کو ارسال کردہ خط میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میری دانست میں یہ ممتاز شخصیات اس منصب کے لیے نہایت مناسب اور اہل ہیں لہٰذا آپ بغیر کسی مزید تاخیر کے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے کے لیے یہ 3 نام زیر غور لائیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان تحریک انصاف کا چیف الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد کا اظہار

خط میں شہباز شریف نے امید ظاہر کی تھی کہ نام بھجوانے کے بعد وزیراعظم کی جانب سے جلد جواب دیا جائے گا۔

انہوں نے خط میں کہا کہ 6 دسمبر کو چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی 5 سالہ آئینی مدت مکمل ہورہی ہے اور الیکشن کمیشن کے 2 ارکان کے مناصب بھی تاحال خالی ہیں جبکہ الیکشن ایکٹ2017 کے سیکشن 3 کے تحت الیکشن کمیشن کا بینچ کم ازکم 3 اراکین پر مشتمل ہونا چاہیے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ چیف الیکشن کمشنر، ایک یا ایک سے زائد ارکان کا تقرر نہ ہوا تو الیکشن کمیشن غیر فعال ہوجائے گا۔

خیال رہے کہ آئین کی دفعہ 213 کی شق نمبر 2 حصہ الف کے تحت وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے پارلیمانی کمیٹی کو چیف الیکشن کمشنر کے تقرر یا سماعت کے لیے نام بھجواتا ہے۔

اس حوالے سے اپوزیشن رہنما کا کہنا تھا کہ میری دانست میں آئین کے تحت آپ کو مشاورت کا یہ عمل بہت عرصہ قبل شروع کردینا چاہیے تھا لیکن اب میں بذات خود الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے کو غیرفعال ہونے بچانے کی کوشش میں دوبارہ مشاورت کا عمل شروع کررہا ہوں۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن اراکین کے تقرر کیلئے نئے نام طلب

شہباز شریف نے اپنے خط میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ ان افراد کی اہلیت کو سراہیں گے اور قانون کے مطابق فوری طور پر زیرِغور لائیں گے اور اس سلسلے میں اگر مزید وضاحت یا معلومات درکار ہوں تو آپ کو فراہم کردی جائیں گی۔

قائد حزب اختلاف نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان اور سندھ سے الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کے لیے اتفاق رائے پر مبنی مشاورت ضروری ہے جبکہ مشاورت کے لیے عدالت عظمیٰ بھی اپنے متعدد فیصلوں کے ذریعے رہنمائی مہیا کرچکی ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے 2 صفحات پر مشتمل اپنے خط میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں میں موجود نظیروں (مثالوں) کی تفصیل بھی درج کی۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے عقلی و منطقی استدلال کے باوجود بدقسمتی سے ہماری مشاورت میں کمیشن کے اراکین کے بارے میں اتفاق رائے نہ ہونے سے تعطل پیدا ہوا، اس لیے میں آپ پر زوردیتا ہوں کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اس مرتبہ مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش کریں۔

شہباز شریف نے جن افراد کو الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے نامزد کیا ان کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

ناصر محمود کھوسہ

ناصر محمود کھوسہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کے بھائی ہیں اور 22ویں گریڈ کے ریٹائرٖڈ افسر ہیں اور ان کی آخری پوسٹنگ ورلڈ بینک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی رہی۔

2013 میں اُس وقت کےوزیر اعظم نواز شریف نے انہیں 4 سال کے لیے ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات کیا تھا۔

اس سے قبل جب 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تشکیل دی گئی تھی تو اس وقت نواز شریف نے ناصر کھوسہ کو اپنا پرنسپل سیکریٹری مقرر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چیف الیکشن کمشنر کا صدر مملکت کے مقرر کردہ اراکین سے حلف لینے سے انکار

سال 2010 میں ناصر سعید کھوسہ، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے چیف سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھے جبکہ وہ چیف سیکریٹری بلوچستان کے عہدے پر بھی اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔

اخلاق تارڑ

اخلاق تارڑ بھی پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز میں 22 گریڈ افسر رہ چکے ہیں۔

وہ سیکریٹری کابینہ، سیکریٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سمیت اہم عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں جبکہ 2014 میں ریٹائرمنٹ کے بعد ایف پی ایس کے رکن بھی رہے تھے۔

جلیل عباس جیلانی

جلیل عباس جیلانی فارن سروسز کے ریٹائرڈ افسر ہیں اور بیرون ملک سفیر کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے نام خط

دوسری جانب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو بھی خط ارسال کیا۔

اپوزیشن لیڈر کی جانب سے یہ خط چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے 5 نومبر کو ارسال کردہ مراسلے کے جواب میں لکھا گیا تھا۔

خط میں سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے اراکین کے تقرر کے لیے 3، 3 نام بھی تحریر کیے گئے۔

مزید پڑھیں: جسٹس (ر) سردار رضا نے چیف الیکشن کمشنر کا حلف اٹھا لیا

شہبازشریف کی جانب سے رکن سندھ کے لیے نثار درانی، جسٹس(ر) عبدالرسول میمن اور اورنگزیب حق کے نام جبکہ رکن بلوچستان کے لیے شاہ محمود جتوئی ایڈووکیٹ، سابق ایڈووکیٹ جنرل محمد روف عطا اور راحیلہ درانی کے نام تجویز کیے گئے۔

خط میں صدر مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ ہمیں عدالتی حکم کا پورا احترام ہے اور متعلقہ آئینی شقوں کو پورا کرنا لازم ہے۔

خط میں کہا گیا کہ آئین کی دفعہ 213 کی شق نمبر 2 حصہ الف کے تحت اپوزیشن لیڈر پھر بامعنیٰ مشاورت کے عمل کا آغاز کررہے ہیں۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے تحت وزیراعظم اپوزیشن لیڈر سے اتفاق رائے پر مبنی مشاورت کرتا ہے چنانچہ ان حقائق کی روشنی میں آپ اپوزیشن لیڈر سے رجوع کرسکتے ہیں۔

اراکین الیکشن کمیشن کے تقرر کر لیے ناموں کی تجویز کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بتایا کہ یہ تمام نام آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں تشکیل دیے گئےاور اپوزیشن کی کمیٹی نے تجویز کیے۔ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن اراکین کا تقرر 45 دن کی آئینی مدت میں نہ ہوسکا

خیال رہے کہ الیکشن کیمشن پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے اراکین جنوری میں ریٹائر ہوئے تھے اور آئین کے مطابق ان عہدوں پر 45 دن میں اراکین کا تقرر ہوجانا چاہیے تھا تاہم اپوزیشن اور حکومت کے اختلافات کے باعث نہ ہوسکا۔

بعدازاں اگست میں صدر مملکت عارف علوی نے الیکشن کمیشن کے اراکین کا تقرر کردیا تھا تاہم ان کے اس اقدام کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مذکورہ معاملہ پارلیمنٹ کو ارسال کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو ہدایت کی تھی کہ اسے حل کروائیں اور الیکشن کمیشن کو غیر فعال ہونے سے روکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں