نیب ترمیمی آرڈیننس کا دفاع، 'جموریت میں سیاسی مشاورت سے چلنا ہوتا ہے'

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2020
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں اس وقت قرضوں کے  بوجھ تلے دبا ہوا ہے—فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے—فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم عمران خان نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ترمیمی آرڈیننس کو مشکل فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوریت میں سیاسی مشاورت اور اتفاق رائے سے چلنا ہوتا ہے۔

اسلام آباد میں سول سروس سرونٹس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ نیب کے چیئرمین کو سمجھایا گیا کہ نیب کا مینڈیٹ کرپشن کیسز کو پکڑنا ہوتا ہے اور عالمی سطح پر کرپشن کی تعریف صرف اور صرف پبلک آفس کا ناجائز اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال ہے۔

مزید پڑھیں: نیب ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

عمران خان نے کہا کہ نیب کے خوف سے ترقیاتی منصوبوں میں بیوروکریسی کا کردار محدود ہوگیا تھا تاہم نیب آرڈیننس میں ترمیم کے ذریعے بیوروکریسی کو ضابطے کی غلطیوں پر نیب کے شکنجے سے بچانا مقصود ہے۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ ٹیکس کیسز فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے دائرے کار میں آتا ہے جس میں نیب کا عمل دخل نہیں بنتا۔

تاجر برادری سے متعلق وزیر اعظم نے کہا کہ تاجر برادری کسی بھی صورت پبلک آفس کو ہولڈ نہیں کرتی، جب وہ کسی پبلک آفس کے ساتھ مل کر اس سے فائدہ اٹھائے تب نیب انہیں اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، 2008 کے بعد ملک پر 24 ہزار ارب روپے کا قرضہ چڑھا اور ملکی آمدن کا آدھا حصہ قرضوں پر سود کی مد میں چلا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے نیب کے اختیارات میں کمی کردی

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پیسہ اس وقت آئے گا جب صنعتیں چلیں گی اور معاشی استحکام کے لیے گورننس کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر 2020 کو پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کا سال قرار دیا۔

واضح رہے کہ 21 اگست کو وفاقی کابینہ نے نیب کے قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کیا تھا۔

نیب آرڈیننس میں کی گئیں کچھ ترامیم کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں چیئرمین نیب کا کردار ختم کردیا گیا، نیب انکوائری اور تحقیقات کے مراحل میں عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دے سکتا۔

ترامیم کے مطابق نیب اب 90 روز تک کسی مشتبہ شخص کو تحویل میں نہیں لے سکتا کیونکہ اس مدت کو کم کرکے 14 روز کردیا گیا ہے جبکہ ماضی میں مشتبہ شخص پر پڑنے والا ثبوتوں کا بوجھ اب پراسیکیوشن پر ڈال دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: نئے آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے الگ کردیا، وزیر اعظم

اس کے ساتھ ایک ترمیم کے ذریعے احتساب قانون میں انکوائری کی تکمیل کے لیے 60 ماہ کے عرصے کی مہلت شامل کی گئی ہے جبکہ ایک اور شق کے ذریعے نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ کارروائی مکمل ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو کسی شکایت پر انکوائری / تحقیقات کا دوبارہ آغاز نہیں کرسکتا۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 دسمبر کو کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں تاجر برادری کا ایک بڑا مسئلہ قومی احتساب بیورو کی مداخلت تھی تاہم آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے علیحدہ کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نیب کو صرف پبلک آفس ہولڈرز کی اسکروٹنی کرنی چاہیے، نیب تاجر برادری کے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھی'۔

علاوہ ازیں نیب قانون میں ترمیم کے مطابق بیوروکریٹس کی پراسیکیوشن کے لیے چیئرمین نیب، کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹریز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور سیکیورٹز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور ڈویژن برائے قانون و انصاف کے نمائندے پر مشتمل 6 رکنی اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور ان کی منظوری کے بغیر نیب کسی سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری یا تحقیقات کا آغاز نہیں کرسکتا نہ ہی انہیں گرفتار کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم عمران خان مسلم امہ کے سال کے بہترین شخص قرار

ایک اور ترمیم کے ذریعے نیب کو اسکروٹنی کمیٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی پبلک آفس ہولڈر کی جائیداد ضبط کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

ایک ترمیم کے مطابق ’متعلقہ حکام یا محکموں کو انکوائریاں اور تحقیقات منتقل کی جائیں گے‘۔

اس کے ساتھ ہی ‘ ٹرائلز کو متعلقہ احتساب عدالتوں سے ٹیکس، لیویز اور محصولات کے متعلقہ قوانین کے تحت نمٹنے والی کرمنل کورٹس میں منتقل کیا جائے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں