لغت کے مطابق پیراسائٹ ایک ایسے جاندار کو کہا جاتا ہے جو دوسرے جانداروں (اپنے میزبانوں) کے سہارے زندہ رہتے ہیں۔ بونگ جون ہو کی پیراسائٹ نے بھی اپنے آڈیئنس کے ساتھ اپنا کچھ ایسا ہی رشتہ قائم کرلیا ہے۔

چند روز قبل آسکر کی تاریخ میں اپنا نام رقم کروانے والی نقادوں کی یہ محبوب فلم کسی بھی متاثر کن فلمی تخلیق کی طرح آڈیئنس سے کچھ اس طرح جُڑ جاتی ہے کہ وہ ابتدا سے اختتام تک اپنی نشستوں سے ہل بھی نہیں پاتے۔ فلم آپ کے اندر ایک بیچ بو دیتی ہے جو بڑھتا جاتا ہے اور آپ مضطرب ہوتے جاتے ہیں۔

بڑی حد تک پیراسائٹ میں نظر آنے والے کرداروں کی ہی طرح فلم کی مزاحیہ اور المیے سے بھرپور کہانی اپنے شاندار ابتدائی منظر سے ہمیں اپنے سحر میں گھیر لیتی ہے اور آگے جاکر ایسا رخ اختیار کرتی ہے جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

عام فلم بینوں کے لیے تو کسی مرحلے پر بھی کہانی کی پیش گوئی کرنا ناممکن جیسا ہے، بلکہ پیراسائٹ ان فلم بینوں کے لیے بھی خوشگوار حیرت کا سامان ثابت ہوسکتی ہے جو جون ہو کی فلم سازی سے بخوبی آشنا ہیں۔

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کوئی سائنس فکشن یا پھر کسی حقیقی طفیلی جاندار پر مبنی فلم ہے تو آپ غلط ہیں۔ دراصل اس فلم کی کہانی 2 گھرانوں پر مبنی ہے۔ ان میں سے ایک گھرانہ کم کا ہے جو غربت کا مارا ہے اور دوسرا پارک گھرانہ ہے جس کے پاس مال و زر کی کوئی کمی نہیں۔

دونوں گھرانے 4، 4 افراد پر مشتمل ہیں۔ دونوں گھرانوں میں والدین، ایک لڑکی اور ایک لڑکا شامل ہے۔ مگر ان میں سے ایک گھرانہ میلے کچیلے سے بیسمنٹ اپارٹمنٹ میں رہتا ہے، جہاں ایک کھڑکی کھلی رکھی جاتی ہے تاکہ پڑوسیوں کا وائی فائی چوری کیا جاسکے، اور سڑکوں میں کی جانے والی کیڑے مار اسپرے سے مفت میں گھر کے کیڑے مکوڑوں سے جان چھڑائی جاسکے۔

دوسرا خاندان سی سی ٹی وی کیمروں کی کڑی نگرانی میں دروازے بند مکان میں رہتا ہے۔ دونوں گھروں کے داخلی حصے پر شیشے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن جہاں غریب گھرانے کے گھر کی ٹوٹی کھڑکی کے سامنے پیشاب کرتے شرابی نظر آتے ہیں وہیں امیر گھرانے کے گھر سے سیؤل شہر کی بھیڑ بھاڑ سے بہت دُور پہاڑوں کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

کم خاندان کوئی عام دغا باز گروہ نہیں ہے—NEON/CJ Entertainment
کم خاندان کوئی عام دغا باز گروہ نہیں ہے—NEON/CJ Entertainment

پارک خاندان کم گھرانے کے بیٹے ’کی وو‘ کو اپنے گھر ٹیوٹر کے طور پر مقرر کرتا ہے۔ کی وو کو پارک خاندان اپنی بیٹی ’دا ہائی‘ کو انگریزی پڑھانے کے لیے نوکری پر رکھتا ہے۔ ’کی وو‘ کو گھر کے ملازم سے معلوم چلتا ہے کہ یہ گھر معروف آرکیٹیکٹ اور گھر کے حقیقی مالک کی جانب سے خاص رد و بدل کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔ ’کی وو‘ پارک خاندان کے گھر میں داخل ہونے کے ساتھ ہی اپنے اہل خانہ کے لیے ملازمت کے مواقع تلاش کرنا شروع کردیتا ہے۔

’کی وو‘ اپنی بہن کو جیسیکا نام کے ساتھ آرٹ تھیراپسٹ اور ٹیچر ظاہر کرتا ہے، وہ پارک خاندان کی فنکارانہ صلاحیت کے مالک لیکن ذہنی طور پر پریشان چھوٹے لڑکے سانگ کے ساتھ ’کام‘ کرنا شروع کردیتی ہے۔ آگے چل کر کم گھرانے کی والدہ کو گھر پر ملازمہ رکھ لیا جاتا ہے اور والد کو ڈرائیور کی نوکری دے دی جاتی ہے۔

کہانی اس وقت بدصورت موڑ لیتی ہے جب کم گھرانے کے سارے افراد کا مقدر بدلنے لگتا ہے اور ان سب کو پارک خاندان کے گھر پر ملازمتیں مل جاتی ہیں۔ اس سب سے بڑھ کر پیراسائٹ کی کہانی طبقات اور عدم مساوات پر مبنی ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ پارک خاندان جیسے ہر طرح سے بھلے امیر لوگ غریبوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

فلم بین کہانی میں پارک خاندان سے ملنے سے پہلے کم گھرانے کے ساتھ کافی وقت گزار چکے ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ پہلے سے علم ہوتا ہے کہ وہ مشکلات کا شکار ہیں اور انسانی وجود ہیں۔ لیکن جب پارکوں کے ہاں کام کرنے کے لیے وہ اپنی اصلی شخصیت ظاہر نہیں کرتے تب وہ نہ صرف اپنی شناخت (اور حقیقی ناموں) سے محروم کردیے جاتے ہیں بلکہ ان سے ان کی انسانیت بھی چھین لی جاتی ہے۔

یہ جون ہو کی تحریر اور ہدایت کاری کا ہی کمال ہے کہ ہم کم گھرانے کے افراد کو پارک خاندان کے زاویہ نظر سے دیکھنا بلکہ محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جون ہو اور جاندار کرداروں نے پیراسائٹ میں طبقات کے بارے میں تبلیغی طرز اپنائے بغیر بڑی ہی دلچسپ کہانی بتائی ہے۔

آسکر ایوارڈز میں بہترین فلم کا اعزاز حاصل کرنے سے پہلے پیراسائٹ کی آسکر کامیابی کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں۔ دلچسپ بات یہ کہ جس انداز میں جون ہو کی فلم ایک گھر کی کہانی بتاتی ہے اسے دیکھ کر فلم روما کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اس شاندار بین الاقوامی فلم نے بھی اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین فلم کی نامزدگی حاصل کرکے تاریخ رقم کی تھی۔

بدنامِ زمانہ ڈرٹی وار پر مبنی میکسیکو کے فلم ساز الفونسو کورون کی فلم روما بھی ایک گھر اور اس کے اہل خانہ کے گرد گھومتی ہے۔ فلم روما میں یہ گھر میکسیکو میں واقع ہوتا ہے جس کی کہانی اسی گھر میں مقیم آیا کے زاویہ نظر سے بیان کی جاتی ہے۔ مگر جہاں کورون نے اپنی فلم میں گھر کو جنگی حالات سے دُور ایک محفوظ جگہ کے طور پر پیش کیا ہے وہیں جون ہو کی فلم میں نظر آنے والا نفیس گھر صرف بظاہر ہی ایک محفوظ ٹھکانہ ہوتا ہے۔

پیراسائٹ مزاح میں لپٹی طبقاتی تفریق کی ایک دلچسپ کہانی ہے—
پیراسائٹ مزاح میں لپٹی طبقاتی تفریق کی ایک دلچسپ کہانی ہے—

روما بھلے ہی گزشتہ برس فلمی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز حاصل نہ کرسکی ہو، لیکن اس نامزدگی اور پیراسائٹ کی فتح ان فلم سازوں کے لیے خوشی کی خبر سے کم نہیں جو عالمی فلم بینوں کے لیے علاقائی فلمیں بنا رہے ہیں۔ آسکر جیتنے کے بعد پیراسائٹ کی دنیا میں مقبولیت اور بھی زیادہ بڑھ جائے گی۔

پھر جب فلم بین اس فلم کو دیکھنے بیٹھیں گے تو جون ہو کی دلچسپ داستان گوئی انہیں آخری منظر تک ٹس سے مس نہیں ہونے دے گی۔ ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ پیراسائٹ میں ان موضوعات کو چھیڑا گیا ہے جن کا تعلق کسی ایک ملک تک محدود نہیں۔ فلم کی کہانی اگرچہ سیؤل کے پس منظر پر مبنی ہے لیکن اسے کراچی، ممبئی، نیو یارک یا کسی ایسے بڑے شہر سے باآسانی جوڑا جاسکتا ہے جہاں دولت کی تقسیم میں عدم مساوات پایا جاتا ہے۔

'گولڈن گلوب' ایوارڈز میں بہترین غیر ملکی فلم کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد جون ہو نے (کورین زبان) میں کہا کہ ’جب آپ سب ٹائٹلز کی رکاوٹ عبور کرلیتے ہیں تو آپ کا تعارف کئی دیگر دلچسپ فلموں سے ہوتا ہے‘۔ بلاشبہ پیراسائٹ دنیا میں جنوبی کورین سینما کا زبردست تعارف ہے۔

فلم میں کہیں کہیں استعمال ہونے والے الفاظ، پُرتشدد مناظر اور جنسی مواد کی وجہ سے پیراسائٹ کو ریسٹرکٹڈ ریٹ کیا گیا ہے، یعنی 17 برس سے کم عمر فلم بینوں کو صرف اپنے والدین یا بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر فلم دیکھنے کی اجازت ہے۔


یہ فلم ریویو ڈان، آئیکون میں 9 فروری 2020ء کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں