فلسطینی قیدی کے جنسی استحصال کی ویڈیو لیک کرنے پر اسرائیلی فوج کی سابق پراسیکیوٹر گرفتار
اسرائیلی پولیس نے فلسطینی قیدی کے جنسی استحصال کی ویڈیو لیک کرنے پر پیر کے روز سابق خاتون ملٹری پراسیکیوٹر یفات تومر-یروشلمی کو گرفتار کرلیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیل میں قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے کہا کہ یہ اقدام اس اسکینڈل کے بعد سامنے آیا ہے، جب ایک ویڈیو لیک ہوئی جس میں بظاہر فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ بدسلوکی (جنسی استحصال) کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یفات تومر-یروشلمی اتوار کو اپنے استعفے کا اعلان کرنے کے بعد کئی گھنٹوں کے لیے لاپتا ہوگئی تھیں، اور میڈیا میں ان کی ممکنہ خودکشی کی کوشش کے حوالے سے قیاس آرائیاں گردش کرنے لگی تھیں۔
ویڈیو کے 2024 میں لیک ہونے کے بعد 5 ریزروسٹ اہلکاروں پر باضابطہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی، ان پر لگنے والے الزامات میں سے ایک یہ تھا کہ انہوں نے ایک ’نوکیلے آلے‘ سے قیدی کو نازک عضو کے قریب زخمی کیا۔
قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے پیر کو ’ٹیلی گرام‘ پر کہا کہ یہ طے پایا کہ گزشتہ رات کے واقعات کے پیشِ نظر جیل سروس اضافی چوکس رہے گی، تاکہ اس قیدی (یعنی تومر-یروشلمی) کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے جسے حراست میں رکھا گیا ہے۔
بیان میں بن گویر نے اس بات پر زور دیا کہ تحقیق کو پیشہ ورانہ انداز میں انجام دینا اہم ہے، تاکہ اس کیس کی مکمل حقیقت سامنے آئے جس نے آئی ڈی ایف (فوج) کے فوجیوں کے خلاف تہمت لگائی۔
بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان پر کون سے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
پیر کو چینل 12 نے اطلاع دی کہ پولیس کو شبہ ہے کہ تومر-یروشلمی نے اپنی جان لینے کا ارادہ نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے اپنی گمشدگی کا ڈرامہ اس لیے رچایا تاکہ اپنے فون سے چھٹکارا حاصل کر سکیں، جس میں ممکنہ طور پر حساس معلومات موجود تھیں۔
کچھ اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی کہ انہوں نے ایک خط چھوڑا ہے، جسے خودکشی کے نوٹ کے طور پر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
جمعہ کے روز اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ تومر-یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، جب کہ سدی تیمن فوجی اڈے پر گزشتہ سال لی گئی ویڈیو کے افشا ہونے کی تحقیقات جاری ہیں۔
’شدید تشدد‘
اس وقت کی نگرانی کیمرہ فوٹیج سے اشارہ ملتا تھا کہ فوجیوں نے غیرقانونی کارروائیاں کیں، اگرچہ منظر صاف نظر نہیں آ رہا تھا، کیوں کہ یہ واقعات ان فوجیوں کے پیچھے موجود اہلکار ڈھال اٹھائے کھڑے تھے۔
یہ ویڈیو کئی میڈیا اداروں نے نشر کی، اور اس کیس نے بین الاقوامی سطح پر غصے اور اسرائیل کے اندر احتجاج کو جنم دیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے فروری میں کہا کہ اس نے سدی تیمن میں بدسلوکی سے جڑے پانچ ریزروسٹ فوجیوں پر فردِ جرم عائد کی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے قیدی پر شدید تشدد کیا، جس میں ایک نوکیلے آلے سے قیدی کے جسم کے نچلے حصے کو زخمی کیا، جو مقعد کے قریب تک جا پہنچا۔
مزید کہا گیا کہ تشدد کے ان واقعات سے قیدی کو شدید جسمانی نقصان پہنچا، جس میں پسلیوں کا ٹوٹنا، پھیپھڑے کا زخمی ہونا، اور اندرونی ریکٹل چوٹ شامل ہیں۔
چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بدسلوکی 5 جولائی 2024 کو اس وقت ہوئی، جب قیدی کی تلاشی لی جا رہی تھی، اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہتھکڑی لگا کر جیل کے قریب ایک علاقے میں لے جایا گیا تھا۔
اس میں تحقیقات کے دوران جمع کیے گئے متعدد شواہد کا ذکر ہے، جن میں نگرانی کی فوٹیج اور طبی دستاویزات شامل ہیں۔
اکتوبر 2024 میں، اقوامِ متحدہ کے ایک کمیشن نے کہا تھا کہ ہزاروں قیدیوں کو اسرائیلی فوجی کیمپوں اور حراستی مراکز میں وسیع اور منظم تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو ’جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف تشدد‘ کے مترادف ہے۔
اسرائیل نے ان الزامات کو ’غیرمعقول‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قیدیوں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے بین الاقوامی قانونی معیارات پر پوری طرح عمل پیرا ہے۔













لائیو ٹی وی