کیماڑی کی فضا میں ہائیڈروجن سلفائیڈ، نائٹرک آکسائیڈ کی موجودگی کا انکشاف

اپ ڈیٹ 19 فروری 2020
مضر صحت گیسز سے متاثرہ خاتون کو ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے — فوٹو: اے پی پی
مضر صحت گیسز سے متاثرہ خاتون کو ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے — فوٹو: اے پی پی

کراچی: کیماڑی کے متاثرہ علاقوں میں نجی لیبارٹری کی جانب سے گزشتہ 2 روز میں فضائی معیار کی جانچ میں دو مضر صحت گیسز کی موجودگی کا انکشاف ہوا، 'جنہیں فضا میں نہیں ہونا چاہیے' تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے ملٹی ڈسپلنری ٹیم اور مضر صحت گیس کے اخراج کے حوالے سے متعدد تحقیقاتی ایجنسیوں کے درمیان رابطوں کی ضرورت پر زور دیا۔

واضح رہے کہ اتوار کی رات کو کمیاڑی بندرگاہ کے نواحی رہائشی علاقوں میں مضر صحت گیسز کی موجودگی کی رپورٹس سامنے آئی تھیں اور اس سے اب تک 14 افراد جاں بحق اور 300 سے زائد بیمار ہوچکے ہیں۔

ان علاقوں میں بھٹہ گاؤں، ریلوے کالونی، جیکسن بازار اور مسان روڈ شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی میں 'زہریلی گیس' کے اخراج سے اموات کی تعداد 14 ہوگئی

عالمی ماحولیاتی لیبارٹری (جی ای ایل) کے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'ضیاالدین ہسپتال کے قریب پیر کی رات تمام آلودگیوں، خصوصاً مضر صحت ہائیڈروجن سلفائیڈ اور نائٹرک آکسائڈ گیسوں کی سطح بہت زیادہ پائی گئی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح کی مضر صحت گیسز کو صحت کے لیے معیاری فضا میں نہیں موجود ہونا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'گیسز کی مقدار اس حد تک نہیں کہ وہ کسی کی جان لے سکیں مگر ان کا صحت پر طویل عرصے کے لیے اثر پڑے گا'۔

سندھ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (سیپا) سے تصدیق شدہ نجی لیبارٹری، سیپا کی درخواست پر فضا کی جانچ کر رہی ہے کیونکہ ماحولیاتی نگراں ادارے کے پاس اس کام کے لیے آلات موجود نہیں ہیں۔

گزشتہ 2 روز میں انہوں نے کیماڑی میں ریلوے گیٹ اور ضیا الدین ہسپتال اور کلفٹن کے علاقے سی ویو پر فضا کے معیار کی جانچ کی۔

جی ای ایل حکام کے مطابق سی ویو کے علاقے میں آلودگی کی مقدار میں اضافہ دیکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ جاننا ضروری ہے کہ گیس لیکیج کے واقعے کے کئی گھنٹوں بعد ہوا کی کوالٹی مانیٹرنگ کی گئی تھی لہذا ہم سو فیصد ضمانت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہلاکتوں کی کیا وجہ ہے جب تک کہ یہ نتائج کسی دوسرے شواہد سے ثابت نہ ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'مثال کے طور پر گیس لیکیج کے متاثرین کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اموات اور گیس کے مابین ایک اہم ربط فراہم کرسکتی ہیں کیونکہ مختلف گیسز جسم پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتی ہیں'۔

انہوں نے وضاحت دی کہ 'شواہد سے گیس کے لیکیج کے ذرائع کی نشاندہی کرنے میں مدد ملے گی جس کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم رہائشی علاقوں کے قریب یا اندر کام کرنے والے تمام ٹرمینلز کا ایک مکمل سروے کرے جو تیل اور پٹرولیم مصنوعات کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں'۔

حکام کا کہنا تھا کہ 'رہائشی علاقوں میں ہلاکتوں کے واقعات نے تصدیق کی کہ زہریلی گیس کسی ٹرمینل سے لیک ہوئی ہے'۔

جی ای ایل کی رپورٹ جس کی کاپی ڈان کو موصول ہوئی، میں کہا گیا کہ 'رات کو کیماڑی میں ضیا الدین ہسپتال کے نزدیک آلودگی کی حد سندھ ماحولیاتی معیار (ایس ای کیو) کی حدود سے زائد تھی'۔

یہ بھی پڑھیں: زہریلی گیس: تکالیف کا باعث ‘سویابین ڈسٹ’ ہوسکتا ہے، لیبارٹری

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'اموات کا سبب بننے والی گیس کے اخراج کے اصل ذرائع معلوم کرنا باقی ہیں، سی ویو پر آلودگیوں کی اعلیٰ سطح کی تشخیص کی جانی چاہیے کیونکہ یہ مقامی وجوہات سے ہوسکتی ہیں'۔

لیبارٹری کے نتائج میں دیکھا گیا کہ ہوائی آلودگیوں میں ہائیڈروجن سلفائیڈ 145 پی پی بی سے 661 پی پی بی (پارٹس پر بلین) تھی جو ایس ای کیو کے مطابق صفر ہونی چاہیے تھی، نائیٹرک آکسائیڈ 191 پی پی بی سے 784 پی پی بی تھی جس کی ایس ای کیو نے 40 پی پی بی حد مقرر کر رکھی ہے۔

سلفر ڈائی آکسائیڈ 123 پی پی بی سے 1420 پی پی بی ریکارڈ کی گئی جس کی ایس ای کیو کے مطابق 120 یی پی بی حد ہے جبکہ وولاٹائل کمپاؤنڈز 73 پی پی بی سے 886 پی پی بی تھی جو ایس ای کیو کے مطابق صفر ہونی چاہیے تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں