بھارت نے مقبوضہ جموں اور کشمیر میں انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے 'محدود اور مشروط' اجازت دیتے ہوئے سوشل میڈیا ویب سائٹ تک رسائی دے دی۔

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق وادی میں لوگوں کو 2جی انٹرنیٹ تک رسائی کی اجازت ہوگی۔

مزیدپڑھیں: بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیر میں تمام پابندیوں کے ازسرِِ نو جائزے کا حکم

علاوہ ازیں رپورٹ میں کہا گیا کہ 'انٹرنیٹ سروس لینڈ لائن کنکشن بھی بحال ہوگیا تاہم تصدیق کے بعد ہی اسے استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔

معروف ویب سائٹ دی کوئنٹ پر منسلک نوٹی فکیشن کے مطابق مقبوضہ جموں اور کشمیر میں انٹرنیٹ کے اسرعمال کے حوالے سے مندرجہ ذیل پابندیاں عائد ہوں گی۔

  1. انٹرنیٹ کی رفتار 2G تک محدود ہوگی۔

  2. پوسٹ پیڈ سم کارڈ ہولڈرز کو انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کی جائے گی جب تک اس کی تصدیق نہ ہو تب تک یہ پابندیاں پری پیڈ سم کارڈز پر دستیاب نہیں ہوں گی۔

  3. انٹرنیٹ کو میک بائنڈنگ کے ساتھ فراہم کیا جائے گا۔

اشاعتی ادارے کے مطابق مذکورہ نوٹی فکیشن میں انٹیلی جنس ذرائع کے بارے میں الفاظ شامل نہیں کیے گئے تھے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا اور وی پی این [ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک] ایپلی کیشنز دہشت گردی کی سرگرمیوں کو مربوط بنانے یا اشتعال انگیز مواد اپلوڈ کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔

دریں اثنا خبررساں ادارے رائٹرز نے کے مطابق مارچ کے وسط تک تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ تک رسائی پر پابندیاں برقرار رہیں گی۔

مزیدپڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

رپورٹ کے مطابق سری نگر میں نجی انٹرنیٹ مہیا کرنے والے سی این ایس انفوٹیک کے منیجنگ ڈائریکٹر ریاض میر نے بتایا کہ انہوں نے اپنے نیٹ ورکس پر سوشل میڈیا اور دیگر تمام ویب سائٹوں تک رسائی بحال کردی۔

علاوہ ازیں اے ایف پی نے اطلاع دی کہ پابندی کو ختم کرنے کے ایک گھنٹے میں ہی ٹویٹر اور فیس بک جیسی سوشل میڈیا سائٹس صارفین کو 'راحت' کے پیغامات پوسٹ کرنے سے گریزاں ہیں۔

کشمیر ویمنز کلیکٹو نامی ایک قانونی ادارے نے ٹوئٹ میں کہا کہ "7 ماہ بعد ہم آپ کے ساتھ آن لائن رابطہ کرنے میں خوش ہیں'۔

واضح رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے لے کر اب تک مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے اور مواصلاتی بلیک آؤٹ ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے چند ماہ بعد فون کالز اور محدود ٹیکسٹ میسیجز کی اجازت دی گئی تھی تاہم انٹرنیٹ سروسز تاحال معطل ہیں۔

بھارتی حکومت نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا تھا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں شٹ ڈاؤن سے ایک ارب ڈالر کا نقصان

بعدازاں 31 اکتوبر کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سخت سیکیورٹی کی موجودگی اور عوامی غم و غصے کے باوجود وادی پر براہِ راست وفاقی حکومت کی حکمرانی کا آغاز کیا تھا جس سے متنازع علاقہ اپنے پرچم اور آئین سے بھی محروم ہوگیا تھا۔

بھارت نے مواصلاتی بندش کے علاوہ کشمیر کے مقامی رہنماؤں کو گرفتار، ان کے سفر پر پابندی عائد کی تھی اور ہزاروں اضافی فوجیوں کو سیکیورٹی خدشات ظاہر کرتے ہوئے وادی میں تعینات کیا تھا۔

مقبوضہ وادی میں کریک ڈاؤن کی وجہ سے سیاحت کے علاوہ زراعت، باغات اور آرٹس اینڈ کرافٹس کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں