31 مارچ تک نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار لگ بھگ 69 ہزار افراد کے ساتھ جرمنی دنیا کا 5 واں بڑا ملک ہے۔

مگر اس بیماری سے وہاں اب تک صرف 713 افراد ہی ہلاک ہوئے ہیں اور اس طرح ہلاکتوں کی شرح ایک فیصد کے قریب ہے، اور جرمنی ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں اس وبا سے اموات کی شرح بہت کم ہے۔

اس کے مقابلے میں اٹلی میں یہ شرح 11 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ امریکا میں بھی یہ شرح 1.8 فیصد ہے، کیونکہ وہاں کیسز پونے 2 لاکھ سے زیادہ ہیں۔

تو جرمنی میں ہلاکتوں کی شرح اتنی کم کیوں ہے ؟ تو ماہرین کے مطابق اس کی وجہ بڑے پیمانے پر مریضوں کی ٹیسٹنگ ہے۔

بہت زیادہ ٹیسٹنگ

جرمنی کے یولم یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیٹرچ روتھن بیچر کے مطابق ' کچھ ممالک میں صرف نمایاں علامات والے کیسز کا ہی ٹیسٹ ہوتا ہے (مثال کے طور پر اٹلی) اور دیگر نے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ حکمت عملی کو اپنایا جیسے جرمنی'۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ جرمنی 5 واں بڑا متاثرہ ملک ہے مگر وہاں ایسے کیسز کی مقدار بہت کم ہونے کا امکان ہے جو رپورٹ نہ ہوسکے۔

لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کے ڈاکٹر لیام اسمتھ کے مطابق ممالک میں اموات کی شرح میں فرق کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں، مگر اس بات کا موازنہ زیادہ نہیں کیا گیا کہ ان ممالک میں کتنے لوگوں کے ٹیسٹ ہوئے، جرمنی بہت تیزی سے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کررہا ہے'۔

15 مارچ تک دنیا میں آبادی کی شرح کے لحاظ سے ٹیسٹ کرانے کے معاملے میں صرف متحدہ عرب امارات، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا سے پیچھے تھا، مگر 20 مارچ کو جرمنی نے اعلان کیا ہے کہ اب ہماری لیبارٹریز ہر ہفتے ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ ٹیسٹ کرنے کے قابل ہوگئی ہیں، حالانکہ 15 مارچ تک مجموعی طور پر اتنے ٹیسٹ ہوئے تھے۔

جنوری میں ہی جرمنی ان چند اولین ممالک میں سے ایک تھا جہاں کووڈ 19 کی تشخیص کے قابل اعتماد طریقہ کار کو تیار کرلیا گیا تھا اور چونکہ طبی سہولیات ریاستوں کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں تو نجی کمپنیوں نے بہت تیزی سے ٹیسٹوں کی بڑے پیمانے پر تیاری کی۔

کم از کم 14 لاکھ ٹیسٹنگ کٹس کو عالمی ادارہ صحت کے ذریعے دنیا بھر میں فروری کے آخر تک تقسیم کیا گیا۔

اس وقت امریکا میں حالات بالکل مختلف تھے اور مارچ کے اوائل میں وہاں حکومتی طور پر کچھ نجی کمپنیوں کو اپنے ٹیسٹ تیار کرنے کی اجازت دی گئی، جس کی وجہ سے ٹیسٹنگ کٹس کی کمی ہوئی۔

ڈاکٹر لیام اسمتھ کا کہنا تھا کہ چونکہ جرمنی نے ٹیسٹنگ کی صلاحیت کو وبا کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ بہت تیزی سے بہتر بنایا، تو اسے معتدل کیسز کی تشخیص کا زیادہ موقع ملا جو وائرس کو زیادہ پھیلانے میں کردار ادا کرتے ہیں، ویسے بھی جتنی جلدی تشخیص ہوگی، کیس کی شدت میں اضافے کا امکان بھی کم ہوگا، جس سے اموات کی شرح بھی کم ہوگی۔

کم عمر افراد زیادہ متاثر

حیران کن بات یہ ہے کہ جرمنی اور اٹلی کی آبادیوں کی اوسط عمر لگ بھگ یکساں ہے اور یہ دونوں ہی یورپی یونین کی معمر ترین اقوام ہیں، مگر جرمنی میں کووڈ 19 کے شکار افراد کی اوسط عمر 46 سال جبکہ اٹلی میں 63 سال ہے۔

ڈاکٹر لیام اسمتھ کے مطابق بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کے نتیجے میں اوسط عمر کم ہوئی، کیونکہ زیادہ ٹیسٹ کرنے سے زیادہ کم عمر افراد میں اس کی تشخیص ہوسکے گی۔

اور یہ بات پہلے سامنے آچکی ہے کہ معمر افراد میں کورونا وائرس سے موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ جرمنی میں اب تک 80 فیصد سے زیادہ مریضوں کی عمریں 60 سال سے کم ہے۔

اچھا طبی نظام

جرمنی ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں آئی سی یو میں بستروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہسپتالوں کو اب تک مریضوں کے نتیجے میں بہت زیادہ بوجھ کا سامنا اس طرح نہیں ہوا، جیسا شمالی اٹلی میں ہوا۔

ابھی بھی جرمنی میں 20 سے 30 فیصد بستر خالی ہیں اور جرمنی کے ایک طبی گروپ Deutsche Krankenhausgesellschaft کے مطابق اب بھی ملک میں سنگین حد تک بیمار افراد کے لیے کافی گنجائش موجود ہے۔

مگر وہاں کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم ابھی وبا کے ابتدائی مرحلے سے گزر رہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ چند ہفتوں بعد اموات کی شرح مختلف ہو، مگر فی الحال ٹیسٹنگ کی پالیسی کامیاب نظر آتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں