لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

ڈیرن سیمی جنہیں اس ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنے پر سیمی خان بھی پکارا جاتا ہے، حالیہ دنوں میں ایک ذاتی لڑائی میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔

بظاہر تو ایک کھلاڑی خوشی خوشی اپنی ٹیم کے اجتماعی مزاج کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بھارتی فرنچائیز کے لیے کھیلتے ہوئے ویسٹ انڈین آل راؤنڈر نے پایا کہ ان کو اور ایک دوسرے ساتھی غیر ملکی کھلاڑی کو پکارنے کے لیے ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کی جانب سے استعمال کیا جانے والا نک نیم ایسا نہیں جسے اچھے طریقے سے یاد رکھا جائے۔ ٹیم کے دیگر مقامی کھلاڑیوں کی جانب سے 'کالو' کہہ کر پکارے جانے پر ڈیرن کو دھچکا پہنچا ہے۔

ڈیرن سیمی ایک پاکستانی شہری ہیں۔ وہ اس ملک کے پیدائشی شہری نہیں ہیں بلکہ انہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ غیر رسمی بات چیت اور دشنام دہی اور کسی کی رسوائی کا سبب بننے کے بیچ کی باریک لکیر پار کرنے کے ہمارے رجحان کو ہم پر اجاگر کرنے کے لیے شاید وہ برصغیر کی مقامی زبانیں سیکھنے کا شوق ترک نہیں کریں گے۔

بے چارہ بچہ۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہماری والدہ ہم سے یہ کہا کرتی تھیں کہ ہمیں کیوں کسی بھی شخص کے لیے لفظ بے چارہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس نصیحت کے بعد اگر ہم غلطی سے بھی یہ لفظ ادا کردیتے تو وہ بہت ہی غصہ کرتیں۔ کیوں کسی کو بے چارہ پکارا جائے؟ آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ آپ کسی کی محرومی پر انگلی کھڑی کریں۔

مزید پڑھیے: پارلیمانی گالیوں کی ڈکشنری

تاہم گھر کے باہر یہ لفظ اپنے اصول اور منطق کے زیرِ اثر تھا، جس سے جڑی کہانیاں ہمیشہ ہماری والدہ کو تھوڑا مضطرب اور اکثر حیران کرتی تھیں۔ دنیا کی عمر جتنی بڑی ہوگی اتنی ہی زیادہ یہ بے تکلفی، ڈرانے اور اظہار کے طریقوں کی چھوٹ پیدا کرے گی۔ سیاسی میدان میں شائستگی تو جیسے ناپید رہی ہے۔

جب سیمی اور دیگر غیر ملکی کھلاڑیوں نے نیک نیتی کے ساتھ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے لیے کمر کسنا شروع کی تھی تب بھی انہیں کچھ خطابات سے نوازا گیا تھا۔ ایک طرف مداحوں نے انہیں سورمہ پکار کر استقبال کیا تو دوسری طرف وہ لوگ جن کے پاس پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے پاکستان میں انعقاد کی مخالفت کی کئی وجوہات تھیں انہوں نے ہر طرح سے ان پر تنقید کے نشتر برسائے۔ ان دنوں دشنام دہی کا ایک وار حزبِ اختلاف کے سب سے طاقتور سیاستدان کی جانب سے بھی کیا گیا تھا۔

وہ شخص کھیل سے بھی کافی واقفیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ خود اپنے وقت کے ایک بڑے آل راؤنڈر شمار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے پی ایس ایل فائنل کھیلنے کے لیے آنے والوں کو ریلو کٹا کہا تو اس بیان کے قومی سطح پر اثرات مرتب ہوئے۔

شاید انہوں نے یہ بات بے تکلفی میں کہی ہو، ٹھیک جس طرح ہم میں سے بہت سے لوگ کالو کو معیوب یا بدنیتی ظاہر کرنے والا لفظ تسلیم نہیں کرتے۔ چٹا، بگا، موٹا، کالا، گنجا اور ڈھیلا یہ وہ نام ہیں جو ماضی کے محلوں میں لوگوں کو ان کی جسامت اور رنگ و روپ کے مطابق دیے جاتے۔

ریلو کٹا کے لغوی معنی ایک ایسے کٹے کے ہیں جو 2 یا اس سے زائد رضاعی ماؤں کے پاس جا کر دودھ پیتا ہے۔ محلے میں بولی جانے والی کھیل کی بولی میں اس لفظ کے 2 معانی تھے، ایک مثبت اور ایک منفی۔ ریلو کٹا وہ کھلاڑی ہوتا جو دونوں ٹیموں کے لیے کھیل سکتا تھا اور یوں وہ ایک ایسا کھلاڑی بن جاتا ہیں جسے دونوں ٹیمیں اپنا کھلاڑی بنانا چاہتی ہیں یا پھر کوئی بھی ٹیم کھلانا ہی نہیں چاہتی۔

مزید پڑھیے: گیلی شلوار، زندہ لاشیں، مولانا ڈیزل، اور اب 'پھٹیچر'

اس ذو معنیت نے یقینی طور پر ڈیرن سیمی کی مدد کی کہ وہ صدر عارف علوی کی جانب سے رواں برس کی ابتدا میں اعزازی شہریت حاصل کرسکیں۔

یہ اس کھیل کے میلے کا ایک بہت ہی اچھا اختتام تھا جس کی شروعات کو ایسے وقت میں غیر ضروری طور پر متنازع بنایا گیا تھا جب تشدد کی تباہ کاریوں کے بیچ ملک میں اس کا انعقاد ایک بڑی کامیابی شمار ہوتا تھا۔

لیکن اگر کسی قسم کی کوئی غیر متوقع تبدیلی ہوتی تو اقتداری راہداریوں میں اس روایت کو برقرار رکھا جاتا کیونکہ اپوزیشن میں یہ آسان ہتھیار تھا۔

اس سے پہلے کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ اس دنیا میں بسنے والے یاسمین راشد جیسے لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور کن پُروقار القابات سے نوازنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ہیں آئیے اس بات کو تسلیم کریں کہ موجودہ اپوزیشن دشنام دہی کے سلسلے کو جاری رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔

وزیرِاعظم کے نام کے ساتھ لفظ 'نیازی' بھی جڑا ہوا ہے جسے وہ بظاہر زیادہ استعمال نہیں کرتے تاہم شہباز اور ان کے دیگر ساتھی صاحبان کو یہ لفظ کچھ زیادہ ہی بھا گیا۔ بعض اوقات تو وزیرِاعظم کی طنزو مزاح کی کتاب میں بے چارہ بچہ کے نام سے جانے پہچانے والے بلاول بھٹو زرداری خدا جانے کیا جتانے کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر ان افراد، جن کی پہچان سیاستدان جیسا بدنام لفظ ہے، کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ اس نام کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو کس قدر دکھ اور تکلیف سے دوچار کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیے: میں کسی کی بہنوں کو گالی نہیں دینا چاہتا، مگر...

جی بالکل، وہ اس غصے میں اس کا آسان جواز تلاش کرسکتے ہیں جو حکومت اور وزیرِاعظم سے لے کر اس کے دیگر نمائندگان کا احاطہ کرتا ہے۔ عوام کا وہ حصہ جو اسمارٹ بلکہ دبلے پتلے، اور ہلکے پھلکے اور باریک سے لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتا ہے اسے فوراً اشرافیہ قرار دے کر بے چارے بچے کے زیرِ اثر کیمپ کا حصہ بتایا جاتا ہے۔

وہ ڈاکٹر خواتین و حضرات جو کورونا وائرس سے بچنے کے لیے سماجی رابطوں کو محدود کرنے کے حوالے سے سخت انتظامات کا مطالبہ کرتے ہیں ان کے ساتھ بھی میڈیا کے ان ممبران جیسا ہی رویہ روا رکھا جاتا ہے جو کرفیو کے دوران پاکستان میں ایک طویل مصروف دن گزارنے کے بارے میں دل کو بہلانے کے خیالات سمجھتا ہے۔

اشرافیہ کا لفظ مباحثے کی ابتدا میں ہی استعمال کیا جانے لگا کہ جب مشتعل ہونے کی اتنی ضرورت بھی نہیں تھی۔ وقت کے ساتھ بگڑتی صورتحال کی وجہ سے حکومت کے نمائندگان کی گھبراہٹ میں اضافہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور کے شہریوں کی بے خوف زندہ دلی کے باعث انہیں ملنے والے زندہ دلانِ لاہور کے خطاب کو ایک طنز سے بدل کر کورونا وائرس سے متعلق حفاظتی اصولوں (جو وجود ہی نہیں رکھتے) کا احترام نہ کرنے پر جاہل قرار دیا جانا قابلِ فہم عمل ہے۔

جاہل دراصل اندر چھپا بیٹھا تھا اور ایک عرصے سے پھل پھول رہا تھا۔ اب جب آپ ان افراد کا جذباتی چارٹ مرتب کریں گے جو عالمی وبا کے بیچ ریوڑ کو سبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ایسے میں پھر اسے باہر آنا ہی تھا۔ یہ بیان پنجاب، جو کہ کورونا وائرس کے بحران کو سنبھالنے میں شاید سب سے پیچھے رہ جانے ولا صوبہ ہے، کی وزیرِ صحت کے دفاتر سے جاری ہوا ہے لہٰذا یہ کوئی معمولی بات نہیں۔


یہ مضمون 19 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں