لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

عالمی وبا کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ان سے متعلق بے شمار پیش گوئیاں کی گئیں اور انہی میں سے ایک پیش گوئی یہ بھی ہے کہ وبا ٹلے یا نہ ٹلے اس سے قطع نظر آن لائن تعلیم کا سلسلہ بالخصوص انڈر گریجویٹ سطح پر وبا کے بعد بھی اسی طرح جاری رہے گا۔

بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ آن لائن تعلیم کا رجحان تو پہلے ہی موجود تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اس طرزِ تعلیم کی صلاحیتوں کو آزمانے کے لیے دباؤ بہت تیزی کے ساتھ بڑھا ہے۔

یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم کا شعبہ جس نظام کے تحت کام کرتا ہے اس پر اس کے کون سے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ کیا یہاں کام کرنے کے لیے عالم گیریت کی گنجائش موجود ہے؟ کیا ہارورڈ، ایم آئی ٹی یا آکسفورڈ جیسی کوئی اعلیٰ یونیورسٹی دنیا کے دیگر حصوں میں بیٹھے بڑی تعداد میں موجود طلبا کو اپنی ڈگریاں دینے پر راضی ہوسکتی ہیں؟ اس سے کم رینکنگ والی یونیورسٹیوں اور/یا ترقی پذیر ممالک کی یونیورسٹیاں کس طرح متاثر ہوں گی؟

چند لوگوں کا ماننا ہے کہ آن لائن تعلیم کی صلاحیت پر کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر بات کی جا رہی ہے۔ آن لائن تعلیم کا سلسلہ تو کورونا وائرس کی آمد سے کوئی ڈیڑھ دہائی پہلے سے چلتا آ رہا ہے۔ اور یہ سلسلہ اعلیٰ تعلیم کی مارکیٹ میں کچھ زیادہ جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔

ابھی تو صورتحال یہ ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث یونیورسٹیوں کے پاس آن لائن تدریسی طریقہ اپنانے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں بچا ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ جیسے ہی یونیورسٹیاں کھلنا شروع ہوں گی تو لوگ ایک بار پھر کمرہ جماعت میں تعلیم حاصل کرنے کے روایتی طریقے کو ہی ترجیح دیں گے۔

مزید پڑھیے: علم کی 'آن لائن' شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!

رابطہ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ اگر صرف 4 ماہ پہلے کی بات کی جائے تو ایسے بہت ہی کم لوگ تھے جو زوم یا مائیکرو سافٹ ٹیمز جیسے آن لائن ذرائع سے واقف تھے۔

جب کبھی لوگ آن لائن ملاقات کرنا چاہتے تھے تو وہ اسکائپ کا ہی استعمال کرتے تھے۔ عالمی وبا نے اس رجحان میں بہت ہی قلیل عرصے میں تبدیلی پیدا کردی ہے۔ اب ٹیکنالوجی سے وابستہ کمپنیاں موجودہ آن لائن پلیٹ فارموں میں جدت متعارف کرنے یا پھر پہلے سے بہتر آن لائن مواصلاتی ذرائع متعارف کروانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔

زوم بہت ہی کم عرصے میں سیکیورٹی کو بہتر اور رابطہ آسان بنانے کے لیے متعدد نئے فیچرز متعارف کرواچکی ہے۔ موجودہ آن لائن تدریس کی صلاحیتوں کا موازنہ اگر چند برس پہلے کی صلاحیتوں سے کیا جائے تو دونوں میں بڑا فرق نظر آسکتا ہے۔

شاید اس کی ایک اور اہم وجہ گزشتہ چند ماہ کا وہ تجربہ ہے جس نے لوگوں کو اپنی سہولت اور کام کرنے کے مخصوص طریقوں سے باہر نکال دیا ہے۔ اس نے ہماری کچھ عادتوں کی بیڑیوں کو کمزور کیا ہے اور ہماری نظروں و تخیل پر لگے پردے کو ہٹایا ہے۔ بہت سے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ رابطہ جس کے لیے انسان کی جسمانی موجودگی لازمی سمجھی جاتی ہے اسے اب بڑی حد تک ورچؤل گفتگو کے ذریعے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

مثلاً اب کئی ساری پیشہ ورانہ کانفرنسیں ورچؤل جگہوں پر منعقد کی جا رہی ہیں، جس کی بدولت وقت اور پیسوں کی ہونے والی بچتوں نے ان ورچؤل کانفرنسوں کو توجہ کا مرکز اور مضبوط متبادل بنا دیا ہے۔ اسی طرح کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ دفتر سے دُور بیٹھ کر کام کرنا ممکن ہے اور آمنے سامنے بیٹھ کر ملاقات کرنے میں اگر مسائل درپیش نہ بھی ہوں تب بھی دفتر سے دُور یا گھر بیٹھ کر کام کرنے کا طریقہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔

گھر بیٹھ کر کام کرنے سے دفتر آنے جانے میں خرچ ہونے والے پیسوں اور وقت کی اچھی خاصی بچت ہوجاتی ہے۔

مزید پڑھیے: آن لائن پڑھانے کا میرا اب تک کا تجربہ

آن لائن درس و تدریس میں کون سے فائدے اور مواقع موجود ہیں؟ فی الحال تو اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ہم ابھی شاید اس شعبے کے جدتی عمل کے ابتدائی زینے پر موجود ہیں، مگر موجودہ حالات دیکھ کر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ آن لائن درس و تدریس کا طریقہ ایک مضبوط اور پہلے سے زیادہ مسابقتی متبادل بنتا جا رہا ہے۔

قانون اور اقتصادیات کے شعبے کے بانیوں میں سے ایک رونالڈ کوز نے کئی برس پہلے ایک فرم کی فطرت اور حدود کے بارے میں سوال اٹھائے تھے۔ بڑی پیمانے کی معیشتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے انہوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ہمارے پاس کئی ساری فرمز کے بجائے چند یا ایک بڑی فرمز کیوں نہیں ہوتیں؟

ایک فرم کی حدود اور ٹیکنالوجی، لین دین کے اخراجات، معیشتوں جیسے عناصر سے متعلق اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں محققین نے ایک طویل وقت لگا دیا اور جو جوابات تلاش کیے گئے ان میں 'مصارف کی زیادتیاں' (diseconomies) نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہیں۔

یونیورسٹیوں کے حوالے سے یہ سوال پوچھنے کا شاید یہی صحیح وقت ہے۔ اگر ٹیکنالوجی مناسب معیار کی تعلیم فراہم کا موقع دے سکتی ہے تو پاکستان میں 200 یونیورسٹیوں کی کیا ضرورت ہے؟ یا پھر ہمیں بس چند بڑی یونیورسٹیاں ہی قائم کرنی چاہئیں؟ کیا اعلیٰ معیار کی حامل یونیورسٹیاں چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں تک اپنا دائرہ کار وسیع کرپائیں گی؟ اس قسم کی توسیع کو ممکن بنانے کے لیے کون سے پرائیسنگ ماڈلز پر عمل کیا جائے گا؟

اگر ایک طالب علم کے سامنے یہ 2 آپشن رکھے جائیں کہ آیا وہ ایک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی سے آن لائن تعلیم حاصل کرنا چاہے گا یا پھر ایک کم درجے کی مقامی یونیورسٹی سے کمرہ جماعت کے روایتی طریقے سے تعلیم حاصل کرنا پسند کرے گا، تو وہ ان دونوں میں سے کس کا انتخاب کرے گا؟

اس انتخاب میں فیس کے فرق کا کس قدر عمل دخل ہوگا؟ فرض کیجیے کہ اگر پاکستان میں انجینئرنگ کا سب سے بہترین تعلیمی ادارہ اس وقت ٹیوشن فیس کی مد میں 10 لاکھ روپے وصول کر رہا ہے اور ایک مقامی یونیورسٹی 3 لاکھ روپے لے رہی ہے۔

ایسی صورت میں اگر ایک بہترین تعلیمی ادارہ آن لائن ڈگری کا سلسلہ شروع کرتا ہے تو وہ مقامی یونیورسٹی کا انتخاب کرنے والے طالب علموں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کتنی فیس کم کرے گا؟ اگر بہترین تعلیمی ادارہ مقامی یونیورسٹی جتنی فیس وصول کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر کیا مقامی یونیورسٹی فیسوں میں کٹوتی اور معیار میں بہتری لاکر اپنا وجود باقی رکھ سکتی ہے یا پھر اسے اپنے دروازوں پر تالا لگانا پڑجائے گا؟ اگلے چند برسوں کے دوران اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں مقامی و عالمی سطح پر اس قسم کے بہت سے مسائل سر اٹھائیں گے۔

اگر انڈر گریجویٹ سطح پر اقتصادیات کی تعلیم تھیوری پر مبنی ہے اور اس کی تجرباتی تکنیکوں کا اطلاق پوری دنیا میں یکساں ہوتا ہے تو ایسے میں آپ ایم آئی ٹی سے ڈگری لینے کے بجائے پاکستانی یونیورسٹی کا انتخاب کیوں کرنا چاہیں گے؟ کیا ایم آئی ٹی مسابقتی پرائیسنگ ماڈل تیار کرسکتی ہے؟ کیا پاکستانی تعلیمی ادارہ مقامی مواد اور عالمی کھلاڑی کے بس سے باہر تدریسی عوامل کے ذریعے اپنی قدر بڑھا سکتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب ہی اگلے چند برسوں کے دوران تعلیمی منظرنامے کو شکل دیں گے۔

مزید پڑھیے: معذور طلبا کو آن لائن تدریس میں درپیش مسائل مت بھولیے

ملٹی نیشنل کمپنیوں کے باعث کئی جگہوں پر مقامی کاروبار معدومیت کا شکار بن چکے ہیں لیکن بہت سی اشیائے صرف و خدمات اور بالخصوص ایسی خدمات کی فراہمی جن میں تخصیص، مقامیت اور/ یا معاملات کو سیاق و سباق کے ساتھ دیکھنا اہم سمجھا جاتا ہے وہاں مقامی کاروبار مؤثر انداز میں مسابقتی ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

کیا انڈر گریجویٹ تعلیم ایک خاص معیار کی حامل پراڈکٹ یا خدمت ہے؟ اگر جواب ہاں ہے تو بڑے بڑے کھلاڑی نئی ٹیکنالوجیوں اور جدتوں کی مدد سے سب کو یہ پراڈکٹ فراہم کریں گے اور چھوٹے کھلاڑیوں کو دیوار سے لگا دیں گے۔

لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اعلیٰ تعلیم کے منظرنامے میں تبدیلی پیدا کرنے کے لیے آن لائن درس و تدریس کے اثرات شاید زیادہ ٹھوس ثابت نہیں ہوسکیں گے۔ ادھر چھوٹے کھلاڑی بدلتی صورتحال کے مطابق اپنی خدمات میں تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے مؤثر انداز میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیں گے۔

بہت سی یونیورسٹیوں میں پہلے ہی یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ آئندہ کچھ عرصے میں کس طرح ان کے روایتی یا آن لائن تدریسی عمل میں ایک مخصوص معیار کا مواد پڑھانے کے بجائے ایک دوسرے سے مختلف مواد پڑھانے کا رجحان پیدا ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ کئی مضامین اور ذیلی مضامین میں مقامی مواد پر پہلے ہی مباحثہ جاری ہے۔ نیا توازن جو بھی ہو لیکن یہ تو طے ہے کہ آئندہ چند برس پوری دنیا کی یونیورسٹیوں کے لیے ہنگامہ خیز رہیں گے۔


یہ مضمون 10 جولائی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں