لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

میں اور میرے ساتھی گزشتہ 2 ہفتوں سے طلبہ کو آن لائن پڑھا رہے ہیں۔ وقت کی کمی اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی ہدایات کی روشنی میں آن لائن تدریسی عمل تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ تاہم ہم میں سے زیادہ تر اساتذہ، انتظامی افراد اور طلبہ کے لیے یہ ایک نئی چیز ہے۔

اس لیے میں نے سوچا کہ کیوں نہ آن لائن تدریسی عمل کے اب تک کے میرے تجربے پر روشنی ڈالی جائے۔ مجھے امید ہے کہ یہ دیگر افراد کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگا۔

میرے زیادہ تر ساتھی اساتذہ اور میں انٹرنیٹ پر براہِ راست کلاسز لے رہے ہیں۔ تو معاملہ یہ ہے کہ میری کلاس کے طلبہ کا ایک چھوٹا حصہ مناسب و معیاری انٹرنیٹ کنیکشن تک رسائی نہیں رکھتا ہے۔ ہم اس مسئلے پر کام تو کر رہے ہیں لیکن چند جگہوں پر انٹرنیٹ کی کوریج ہی نہیں پائی جاتی لہٰذا ایسے طلبہ کو دیگر طریقوں سے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے میں مدد فراہم کی جائے گی۔ ان طلبہ کو پورا لیکچر سننے اور بعض اوقات مباحثوں میں شامل ہونے میں دشواری پیش آتی ہے۔

میں اپنے ہر لیکچر کو ریکارڈ کرتا ہوں اور ہر کلاس کے بعد طلبہ سے شیئر کرتا ہوں۔ آسانی سے ڈاؤن لوڈ ہونے والی آڈیو فائل کے ذریعے نہ صرف طلبہ جب چاہیں لیکچر سے مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ اس طرح ان طلبہ کا مسئلہ بھی کسی حد تک حل ہوجاتا ہے جن کو کمزور انٹرنیٹ کنیکشن کی وجہ سے براہِ راست ویڈیو دیکھنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔

دیگر اساتذہ بھی اپنے اپنے کورس کی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مختلف طریقوں کو استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میرے کورس میں گفت و شنید کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس لیے میں اپنا لیکچر پہلے سے ریکارڈ کرکے نہیں رکھتا، جبکہ دیگر نے بڑی حد تک لیکچر پر مبنی طریقہ ہی اپنایا ہوا ہے۔

آڈیو اور ویڈیو اسٹریمنگ، اسکرین شیئرنگ اور آن لائن وائٹ اور بلیک بورڈ کے ذریعے براہِ راست کلاسوں کے لیے بہت سے پلیٹ فارم اور پروگرام دستیاب ہیں۔ صوتی مباحثوں اور تحریری گفتگو کے لیے مختلف فنکشن بھی موجود ہیں، جن کی مدد سے لائیو کلاس کے دوران لوگ 'ہاتھ کھڑا' کرکے اپنی بات کرسکتے ہیں۔ یوں ماحول کسی حد تک کمرہ جماعت جیسا بن جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ مکمل طور پر ویسا نہیں ہوسکتا مگر کسی حد تک فرق ضرور پڑتا ہے۔

لیکن اس پوری پریکٹس سے یہ اندازہ ہوا کہ فیکلٹی کو مؤثر انداز میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور اپنی ضروریات کے مطابق ماحول کو ڈھالنے کے لیے تربیت کی ضرورت ہوگی۔

آپ آڈیو اور ویڈیو کے لیے کس ذریعے کو استعمال کرتے ہیں؟ آن لائن گفتگو کے لیے کس ذریعے کو استعمال کرتے ہیں؟ آن لائن کلاس کے دوران جب طلبہ ہاتھ کھڑا رہے ہوں، کلاس میں شامل ہونے اور باہر نکل رہے ہوں تو ایسے میں آپ کو کس طرح اپنی توجہ تدریسی عمل پر مرکوز رکھنی ہے؟

اس حوالے سے کئی معاملات میں کنٹرول استاد کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے، جس کے لیے مشق کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے سسٹم کی ضرورت ہے جس پر کام کرنا اساتذہ اور طلبہ دونوں کے لیے آسان اور ممکن ہو۔ میرے لیے یہ معاملہ اس لیے آسان ہوگیا کہ مجھے ایک اسسٹنٹ کا ساتھ میسر ہے جو ان معاملات کو بہتر طریقے سے چلا لیتے ہیں۔

چند طلبہ ایسے ہیں جو اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر تک رسائی نہیں رکھتے یا پھر جنہیں سوفٹ ویئر یا ہارڈ ویئر اپ گریڈیشن درکار ہے، لیکن ان مسائل پر قابو پانے میں ہم کسی نہ کسی حد تک کامیاب رہے ہیں۔

چند فیکلٹی ممبران کو اسی نوعیت کے مسائل کا سامنا رہا جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہارڈ ویئر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی دستیابی (وہ بھی لاک ڈاؤن کے دوران) مشکل ہوتی ہے لیکن اگر کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کی سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ تک رسائی حاصل کرلی جائے اور یونیورسٹی کی جانب سے مستحق طلبہ کو الاؤنس اور تکنیکی مدد فراہم کی جائے تو اس مسئلے کو باآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔

وہ یونیورسٹیاں جو آن لائن درس و تدریس کا نظام قائم کر رہی ہیں انہیں سوفٹ ویئر یا ہارڈ ویئر کی صلاحیتوں سے جڑے مسائل کا ابھی سے حل ڈھونڈنا ہوگا اور اس کام میں ایچ ای سی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

ہمارے تمام طالب علموں کو کلاس سے پہلے مطالعاتی مواد اور لیکچر پریزنٹیشن تک رسائی فراہم کردی جاتی ہیں۔ انہیں یہ مواد یا تو بذریعہ ای میل یا پھر ہمارے اپنے بنے ہوئے لرننگ مینجمنٹ سسٹم (ایل ایم ایس) کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ یہ لرننگ سسٹم مواد کی رسائی، اسائمنٹ اور دیگر تحریری کاموں کو جمع کرنے اور امتحان دینے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔

ہاں ہمیں اس حوالے سے جو سب سے بڑا مسئلہ اب تک درپیش رہا ہے وہ محدود گنجائش سے متعلق رہا ہے۔ اب چونکہ ہمارے پاس آڈیو اور ویڈیو کی بھاری فائلیں ہوتی ہیں اس لیے انہیں اپ لوڈ کرنے کے لیے زیادہ گنجائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ فائل شیئرنگ کا آسان اور منظم طریقہ موجود ہونا چاہیے اور ڈراپ باکس جیسی سروسز کو سہل بنایا جانا چاہیے تاکہ ایک ہی باری میں متعدد افراد کو فائلیں شیئر کی جاسکیں۔

میرے کچھ ساتھی اور میں نے اپنے طلبہ کے لیے واٹس ایپ گروپ بھی بنائے ہوئے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ وہ دن کے کسی بھی پہر میں ہم سے سوالات پوچھ سکتے ہیں اور اگر کوئی مواد انہیں نہ ملے تو وہ اس کی اطلاع ہمیں دے سکتے ہیں۔

میں اس گروپ کو اعلانات کرنے کے حوالے سے بھی استعمال کرتا ہوں جیسے کلاس کب ہوگی اور اسائمنٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ کیا ہے۔ میں طلبہ کے ساتھ انفرادی نشستوں کے اہتمام کے لیے فون کا استعمال کر رہا ہوں۔ یہ انفرادی طور پر رابطہ کاری، کلاس سے باہر طلبہ کی رہنمائی کا وقت دینے، اور مناسب انٹرنیٹ کنیکشن سے محروم علاقوں کے طلبہ کے لیے یہ ایک بڑا اچھا طریقہ ثابت ہوسکتا ہے۔

میرے ایک طالب علم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی بہتر سہولیات موجود نہیں ہیں اس لیے انٹرنیٹ سے زیادہ فون کے ذریعے ان سے رابطہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

اگر آپ ان تمام یا چند مخصوص آلات کو استعمال کر رہے ہیں تو اس سے کام کا بوجھ تو بڑھتا ہے لیکن میرے خیال میں اس طریقے کو اختیار کرکے تدریس کے معیار میں اس روایتی طریقے کے مقابلے میں زیادہ فرق نہیں آئے گا جو کمرہ جماعت میں آمنے سامنے رہ کر دی جاتی ہے۔

لیکن یہ ابھی صرف مفروضہ ہی ہے جو طالب علموں کے ابتدائی ردِعمل پر مبنی ہے۔

آن لائن درس تدریس کے عمل کی طرف بڑھنے کے ساتھ ہمارا معیار تعلیم تبدیل ہوا ہے یا نہیں؟ یہ جاننے کے لیے بڑے پیمانے پر تحقیق درکار ہے۔
ہمیں آن لائن ذرائع میں انفرادی آلات اور انفرادی ٹیکنالوجی کے پڑھائی کے عمل پر ہونے والے اثرات کا پتا لگانے کے لیے طویل مدتی تحقیق کرنا ہوگی۔

مگر یہ اس وقت ہی ممکن ہوگا جب ہم اس راہ پر آگے بڑھیں گے۔ اگرچہ ایک ماہ بعد میں اسے ایک بار پھر اپنا موضوع تحریر بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں، لیکن فی الحال میں اور میرے ساتھی سمجھتے ہیں کہ آن لائن درس و تدریس کے پڑھائی کے عمل پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔


یہ مضمون 17 اپریل کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں