کیا مصباح الحق نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا؟

15 اکتوبر 2020
اخلاقی قباحتیں، معمولی سی کامیابیاں اور بہت بڑی شکستیں، ان کے ساتھ ساتھ مصباح کا یہ دور تنازعات سے بھی خالی نہیں ہے—فوٹو: اے ایف پی / پی سی بی
اخلاقی قباحتیں، معمولی سی کامیابیاں اور بہت بڑی شکستیں، ان کے ساتھ ساتھ مصباح کا یہ دور تنازعات سے بھی خالی نہیں ہے—فوٹو: اے ایف پی / پی سی بی

بالآخر مصباح الحق نے 2 میں سے ایک عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اب اسے تو ہم 'دیر آید درست آید' بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ انہیں جس عہدے کو چھوڑنا چاہیے تھا، اس پر تو بدستور موجود ہیں لیکن جس عہدے پر موجودگی کا پھر بھی جواز تھا، اس سے استعفیٰ دے کر چلتے بنے ہیں۔

یعنی جس عہدے پر مصباح الحق کو رکھنے کی تُک ہی نہیں بنتی تھی، یعنی ہیڈ کوچ کا عہدہ، اس پر وہ اب بھی براجمان ہیں اور چیف سلیکٹر کے عہدے کو چھوڑ بیٹھے ہیں کہ جہاں ان کو مقرر کرنا کسی حد تک قانون و اصولوں کے مطابق ہوتا۔

بہرحال، کیا مصباح الحق نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا ہے یا ایک سال بعد انہیں بالآخر ’وہ بات‘ سمجھ آگئی ہے جو پہلے آجانی چاہیے تھی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا درحقیقت کوئی جواب ہے نہیں کیونکہ قیاس کے گھوڑے دوڑانے اور ایران توران کرنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ بہتر یہی ہے کہ اس پورے معاملے کو کارکردگی کے تناظر میں دیکھا جائے۔

مصباح الحق نے پچھلے سال ستمبر کے اوائل میں قومی کرکٹ کی تاریخ کے طاقتور ترین کوچ کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا، کیونکہ وہ پہلے کوچ تھے کہ جنہیں چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی ساتھ ملا۔

نیوزی لینڈ کا ماڈل نقل کرنے کا نتیجہ جو نکلا وہ ’کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا‘ کے مصداق ہے۔ خود ہی دیکھ لیں: مصباح کی بحیثیت ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر آمد کے بعد سے اب تک پاکستان 21 انٹرنیشنل میچ کھیل چکا ہے، جن میں سے صرف 7 میں اسے کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ یعنی کامیابی کی شرح صرف ایک تہائی ہے۔

جس عہدے پر مصباح الحق کو رکھنے کی تُک ہی نہیں بنتی تھی، یعنی ہیڈ کوچ کا عہدہ، اس پر وہ اب بھی براجمان ہیں اور چیف سلیکٹر کے عہدے کو چھوڑ بیٹھے ہیں کہ جہاں ان کو مقرر کرنا کسی حد تک قانون و اصولوں کے مطابق ہوتا

مصباح کے دور کا آغاز تو بڑا سہانا تھا، جب پاکستان نے سری لنکا کے تاریخی دورۂ کراچی کے ابتدائی دونوں ون ڈے انٹرنیشنل میچ جیتے لیکن اس کے بعد ایک ڈراؤنا خواب شروع ہوگیا۔ لاہور میں سری لنکا کے خلاف تینوں ٹی20 میچوں میں ناکامی نے وہ کیا، جس کا پہلے سے ہی خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا یعنی کپتان سرفراز احمد کی قیادت کا دور ختم ہوگیا۔

سرفراز ورلڈ کپ کے بعد ویسے ہی تنقید کی زد میں تھے اور مصباح الحق کے عہدہ سنبھالتے ہی چند کرکٹ حلقوں کو گمان تھا کہ اب سرفراز کپتان نہیں رہیں گے۔

بہرحال، اس کے بعد آسٹریلیا کا ہمیشہ کی طرح ایک بھیانک دورہ ہوا۔ نئے کپتان بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان ٹی20 سیریز کے مکمل ہونے والے دونوں میچ بُری طرح ہارا۔ جس کے بعد ٹیسٹ میچوں میں مصباح کے منتخب کردہ نئے کپتان اظہر علی کی ٹیم بے دست و پا نظر آئی۔ برسبین میں ایک اننگ اور 5 رنز کی شکست اور ایڈیلیڈ میں ہونے والے دوسرے و آخری ٹیسٹ میں ایک اننگ اور 48 رنز کی ہزیمت۔ اس سے زیادہ بُرا کیا ہو سکتا تھا؟

بہرحال، سال 2019ء کا اختتام سری لنکا کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز میں 0-1 کی کامیابی کے ساتھ ہوا اور نئے سال میں بنگلہ دیش پر ہاتھ صاف کیے گئے۔ لیکن سُکھ کا اصل سانس 'کورونا وائرس' نے فراہم کیا۔ باقی ماندہ پورا سیزن عالمی وبا کی نذر ہوگیا۔

پھر پاکستان نے اگست میں انگلینڈ کا دورہ کیا، صرف اور صرف مزید ناکامیاں سمیٹنے کے لیے۔ 3 ٹیسٹ کی سیریز میں جیت کے کئی نایاب مواقع گنوانے کے بعد 0-1 سے شکست کھائی جبکہ واحد کامیابی آخری ٹی20 میں سمیٹی اور یوں مختصر ترین فارمیٹ میں سیریز برابر کرنے کے ساتھ دورے کا خاتمہ کیا۔

اس کارکردگی کے بعد مصباح الحق سے یہ توقع تھی کہ وہ ہیڈ کوچ کے عہدے سے استعفیٰ دیں گے، کہ جس پر مصباح کی تقرری ویسے ہی قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر کی گئی تھی۔ دراصل مصباح اس کمیٹی کے رکن تھے جس نے سابق کوچ مکی آرتھر کی کارکردگی کا جائزہ لے کر انہیں عہدے سے فارغ کردیا تھا۔ اس کمیٹی کے کسی بھی رکن کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ اس عہدے کے لیے درخواست تک دیتا۔ لیکن مصباح نے ایسا کیا اور بعد ازاں ایک نہیں بلکہ 2 عہدے حاصل کیے۔

اس معاملے میں بورڈ نے بھی خوب کوتاہی کی کہ قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے لیے خود جو معیارات مرتب کیے تھے، انہی سے روگردانی کی کیونکہ مصباح شاید ہی کسی معیار پر پورے اترتے ہوں۔ ان کے پاس کسی بین الاقوامی ٹیم کی کوچنگ کا تجربہ نہیں تھا جبکہ بورڈ نے کم از کم 3 سال کا تجربہ طلب کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ نوجوان کھلاڑیوں کی بین الاقوامی معیار پر کوچنگ کا وسیع تجربہ بھی ایک شرط تھا لیکن مصباح کے پاس وہ بھی نہیں تھا۔ پھر بھی نہ صرف انہیں ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کے 2 اہم عہدے دیے گئے، بلکہ ان کو سہارا دینے کے لیے یونس خان کو بیٹنگ کوج، وقار یونس کو فاسٹ باؤلنگ کوچ اور مشتاق احمد کو اسپن باؤلنگ کوچ مقرر کرکے پوری تقویت فراہم کی گئی۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!

اخلاقی قباحتیں، معمولی سی کامیابیاں اور بہت بڑی شکستیں، ان کے ساتھ ساتھ مصباح کا یہ دور تنازعات سے بھی خالی نہیں ہے۔ سب سے پہلا معاملہ تو وہی کھڑا ہوا جس کا خدشہ تھا کہ سرفراز کی قیادت جائے گی۔ سری لنکا کے خلاف سیریز میں شکست کا بہانہ بنا کر انہیں فارغ کردیا گیا، یہاں تک کہ ان کی ٹیم میں جگہ بھی نہیں رہی۔

دوسرا بڑا تنازع پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے حوالے سے پیدا ہوا۔ مصباح الحق، جو قومی کرکٹ ٹیم میں بیک وقت 2 عہدوں پر فائز تھے، انہیں اسلام آباد یونائیٹڈ کا کوچ بنادیا گیا۔ اس پورے معاملے کا افسوسناک پہلو یہ تھا کہ یہ فیصلہ ڈین جونز کو ہٹا کر کیا گیا۔ 'پروفیسر ڈینو' اسلام آباد کو 2 مرتبہ چیمپیئن بنوانے والے کوچ تھے، اور ان کے ساتھ 2 مرتبہ غلط ہوا۔ ایک بار ان کی پاکستان کی قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کی درخواست مسترد کی گئی اور پھر اسلام آباد یونائیٹڈ کی کوچنگ سے بھی ہٹا دیا گیا اور دونوں مرتبہ یہ عہدہ پانے والے شخص مصباح ہی تھے۔

بورڈ نے بھی خوب کوتاہی کی کہ قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے لیے خود جو معیارات مرتب کیے تھے، انہی سے روگردانی کی کیونکہ مصباح شاید ہی کسی معیار پر پورے اترتے ہوں

مصباح کا اسلام آباد یونائیٹڈ کا کوچ بننا بھی ویسے ہی متنازع تھا جیسے گزشتہ سے پیوستہ سال انضمام الحق کا۔ انضمام اس وقت چیف سلیکٹر تھے اور انہیں پی ایس ایل کی پلیئر ڈرافٹ کمیٹی سے اس لیے نکال دیا گیا تھا کیونکہ ان کی موجودگی 'مفادات کا تصادم' سمجھی گئی۔ بہرحال، پی ایس ایل میں بھی مصباح کے لیے نتائج اچھے نہیں نکلے۔ یونائیٹڈ اپنے 10 میں سے صرف 3 میچ ہی جیت پایا اور پوائنٹس ٹیبل پر آخری نمبر کے ساتھ اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔

اب عالم یہ ہے کہ پاکستان کو زمبابوے کے خلاف ہوم سیریز کے بعد نیوزی لینڈ کا دورہ کرنا ہے، پھر جنوبی افریقہ کے خلاف تیاری کرنی ہے اور اگلے سال انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز بھی کھیلنی ہیں اور سب سے بڑھ کر ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء بھی۔ لیکن یہاں تو قومی کرکٹ ٹیم کی کوئی کل ہی سیدھی نظر نہیں آتی کیونکہ معاملہ اوپر سے ہی بگڑا ہوا ہے۔ دیکھتے ہیں کرتا دھرتاؤں کو کب ہوش آتا ہے؟

تبصرے (0) بند ہیں